ٹریفک حادثات پر عدالت عظمیٰ کی تشویش

149

عدالت عظمیٰ کی حالیہ سماعت میں کہا گیا ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات دہشت گردی اور بیماریوں سے ہونے والی اموات سے بھی زیادہ ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود، سڑکوں پر قانون کی عملداری اور ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی موثر اقدامات نظر نہیں آتے۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں نے بجا طور پر اس مسئلے کی سنگینی پر سوال اٹھایا ہے، لیکن جب تک حکومت اور متعلقہ ادارے عملی اقدامات نہیں کریں گے، صورت حال میں بہتری کی امید محض ایک خواب ہی رہے گی۔ عدالت عظمیٰ میں ہونے والی سماعت میں یہ بات ایک بار پھر واضح ہوئی کہ بھاری گاڑیوں کی اوور لوڈنگ اور ناقص سڑکوں کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پورٹ قاسم، کورنگی اور انڈسٹریل ایریا جیسی اہم شاہراہوں پر دو دو فٹ کے گڑھے حادثات کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی، حکومتی عدم توجہی اور کرپشن اس کی وجہ ہیں۔ جب تک اوور لوڈنگ کے مقامات پر سخت کارروائی نہیں کی جائے گی اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوگا، حادثات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جب جب حکومتی انتظامی سطح پر کچھ سختی ہوتی ہے یا قانون پر عملدرآمد کا اعلان کیا جاتا ہے، ٹریفک پولیس اور پولیس کی موجیں ہی ہوتی ہیں، ان کے رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی حکومت کے اعلانات کے باوجود شہر میں ڈپمر اور ہیوی ٹریفک دندناتے پھر رہے ہیں اور لوگ موت کا شکار ہورہے ہیں۔ اس تشویشناک صورت حال کے خلاف جماعت اسلامی نے کراچی میں بھرپور احتجاج کیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے بجا طور پر مطالبہ کیا کہ عوام کو تیز رفتار اور خطرناک ڈمپرز اور ٹینکرز کے ظلم سے بچایا جائے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حادثات کے شکار ہونے والے شہریوں کے ورثا کو زرِ تلافی دیا جانا چاہیے تاکہ ان کے نقصان کی جزوی تلافی ہوسکے۔ اسی طرح، روڈ سیفٹی قوانین پر سختی سے عمل درآمد، ہیوی ٹریفک کی متبادل شاہراہوں پر منتقلی، پبلک ٹرانسپورٹ کے مؤثر نظام کی بحالی، اور چنگ چی رکشوں کی بے ہنگم موجودگی پر قابو پانے جیسے اقدامات فوری طور پر ناگزیر ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کے لیے یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ عدالت عظمیٰ کے مشاہدے کے بعد بھی اگر متعلقہ حکام نے اپنی روش نہ بدلی، تو ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی تعداد ہمارے شہروں کو موت کے گڑھوں میں تبدیل کر دے گی۔ عوامی دباؤ اور عدالتی احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ سندھ حکومت اور محکمہ پولیس اپنی ذمے داری نبھائیں اور ایک موثر اور محفوظ ٹریفک نظام کے لیے عملی اقدامات کریں۔