ٹیلی ڈراموں میں امیر طبقے کو نمایاں اور عام آدمی کے مسائل نظر انداز کے جاتے ہیں

48

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) ٹیلی ڈراموں میں امیر طبقے کو نمایاں اور عام آدمی کے مسائل نظرانداز کیے جا تے ہیں‘ ڈرامے کچھ حد تک ہمارے کلچر کی عکاسی کرتے ہیں‘ فکشن اور گلیمر کی بھی بھرمار ہے‘ کہانی ہیجان انگیز اور مکالمے میں شدت ہونے سے ڈرامے اور سماجی اقدار میں فاصلہ پیداہوگیا ہے‘ تعلیمی، سائنسی اور نوجوانوں کے مسائل پر کم توجہ دی جاتی ہے‘ بعض ڈراموں میں حساس موضوعات اور حقائق کو قریب سے دکھایا گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار سندھ پروفیسر لیکچرر ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما منور عباس، آل پاکستان پرائیویٹ اسکول اینڈ کالج ایسوسی ایشن کے چیئرمین حیدر علی، بحریہ یونیورسٹی کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر سدرہ احمد اور عنبر مہر ایڈووکیٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا پاکستان کا موجودہ ٹیلی ڈراما ہمارے کلچر کا عکاس ہے؟ منور عباس اور حیدر علی کا کہنا تھا کہ انٹرٹینمنٹ اور فیشن کے انڈسٹری بننے کے بعد ڈراما کلچر یکسر تبدیل ہوا ہے‘ فکشن اور گلیمر کی بھرمار نے فکری پرواز کو پس پشت ڈال دیا ہے‘ کہانی ہیجان اور مکالمہ شدت میں تبدیل ہو گئی ہے‘ جس کی وجہ سے معاشرے اور ڈرامے میں بہت زیادہ فاصلے پیدا ہو گئے ہیں‘ اب ڈرامے ماورائے کلچر پیش کیے جا رہے ہیں جن
میں ماحول میں موجود ایک فیصد کو سو فیصد بنا کر دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ڈاکٹر سدرہ احمد کا کہنا تھا کہ اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ٹی وی ڈارما دراصل سچائی کا عکس نہیں بلکہ فینٹسی اور تخیل پذیری پر مبنی ہوتا ہے تاکہ عام ذہنی استعداد کے حامل ناظرین اس کا اثر قبول کرسکیں‘ سنجیدہ اور حقیقت سے قریب ڈراموں کے لیے زیادہ سنجیدہ میڈیم تھیٹر کو سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں کم وقت اور محدود صوتی اثرات کے ساتھ تھیٹر کے ناظرین کو زیادہ متاثر کرنا ہوتا ہے‘ پاکستانی ڈرامے کی موجودہ صورتحال کو مایوس کن تو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بیشمار ایسے ڈرامے بھی پیش کیے گئے ہیں جو سنجیدہ اور حساس موضوعات کے علاوہ عام، روزمرہ کی زندگی کے مسائل و حقائق سے قریب تر ہیں، جس میں طنز، مزاح، تخیل پذیری، خاندانی و سماجی حالات کی نہایت موثر اور پروقار طریقے سے عکاسی کی گئی ہے، مگر پھر بھی زیادہ تر توجہ انہی موضوعات پر رہی ہے جس میں غیر حقیقی حد تک گلیمر، شاہانہ طرز زندگی اور ماوارا رومانس کا پرچار کیا جاتا ہے جس سے ٹی وی ڈرامے کے ناظرین جن کی اکثریت متوسط اور غریب طبقات سے ہے وہ منفی اثر قبول کرلیتے ہیں۔ دوسری اہم بات ٹی وی ڈراموں میں غیر ضروری / غیر حقیقی رومانویت، جذباتی ہیجان، حسد، نفرت،خاندانی چپقلش، غصہ، تشدد (خاص کر خواتین کے کرداروں پر)، غیر مناسب زبان اور غیر مہذبانہ مذاق کا استعمال اور غیر ازدواجی تعلقات جیسے اخلاق سوز موضوعات پر کئی سال سے بے تحاشہ کام کیا جا رہا ہے جو کہ عام ناظرین کے لیے ناپسندیدہ ہے‘ ایسے موضوعات کا ٹی وی جیسے طاقتور میڈیم پر بے تحاشہ پرچار خاندانی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کو منفی انداز میں متاثر کر رہا ہے۔ عنبر مہر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موجودہ ٹیلی ڈراما کچھ حد تک ہمارے کلچر کی عکاسی کرتا ہے لیکن اس میں کئی پہلو ایسے بھی ہیں جو حقیقت سے مختلف یا غیر متوازن نظر آتے ہیں‘ ڈرامے اکثر خاندانی تعلقات، رشتوں کی پیچیدگیاں اور روایتی اقدار کو پیش کرتے ہیں جو ہماری ثقافت کی ایک بڑی پہچان ہے‘ کچھ ڈرامے جن میںگھریلو مسائل، عورتوں کے حقوق اور سوشل پریشر کو نمایاں کیا گیا ہے، جو حقیقت پر مبنی ہیں‘ ڈراموں میں اردو اور علاقائی زبانوں کا خوبصورت استعمال کیا جاتا ہے، جو ہماری ثقافتی شناخت کا حصہ ہے‘ زیادہ تر ڈرامے ایک ہی طرز پر چل رہے ہیں، جیسے محبت میں دغا، ساس بہو کے جھگڑے، اور مظلوم عورت کی کہانیاں، جو معاشرے کی مکمل عکاسی نہیں کرتے‘ تعلیمی، سائنسی اور نوجوانوں کے مسائل پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے‘ زیادہ تر ڈرامے امیر طبقے پر مرکوز ہوتے ہیں، جبکہ عام آدمی کے مسائل، جیسے غربت، بے روزگاری، اور صحت کے مسائل کم دکھائے جاتے ہیں‘ کئی ڈرامے ایسے ہوتے ہیں جن میں برے کرداروں کو زیادہ دکھایا جاتا ہے، جو معاشرتی سوچ پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں‘ موجودہ پاکستانی ڈرامے کچھ حد تک ہمارے کلچر کی عکاسی کرتے ہیں لیکن یہ مکمل تصویر پیش نہیں کرتے‘ اگر اس میں مزید متنوع موضوعات، تعمیری کردار، اور حقیقت پسندانہ مسائل کو جگہ دی جائے تو یہ ہمارے معاشرے کی بہتر نمائندگی کر سکتے ہیں۔