بین الاقوامی امداد کے امریکی ادارے یو ایس ایڈ کی طرف سے بھارت کو دی جانے والی 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی امداد کی بندش نے بھارت اور امریکا کی قیادتوں کے درمیان تنازع کھڑا کردیا ہے۔ مودی سرکار کو اس حوالے سے تنقید کا سامنا ہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اس حوالے سے عجیب و غریب باتیں کرکے معاملات کو مزید الجھارہے ہیں۔
ایک طرف تو اس بات پر ہنگامہ برپا ہے کہ بھارت کے لیے رکھے جانے والے 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر دیے نہیں گئے اور دوسری طرف یہ دعوٰی بھی کیا جارہا ہے کہ یہ رقم بنگلا دیش کی ایک ایسی غیر سرکاری تنظیم کو دے دی گئی جس کا کسی نے کبھی نام بھی نہیں سُنا۔ یہ بات کسی اور نے نہیں، خود صدر ٹرمپ نے کہی ہے۔
یہ معاملہ پانچ دن سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا اس حوالے سے اسٹوریز سے بھرے پڑے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ چار دن سے ان 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے رہے ہیں اور اب انہوں نے اس حوالے سے بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا نام بھی لیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے دو دن قبل الزام لگایا تھا کہ یہ رقم جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے بھارت کے انتخابات میں مداخلت کے لیے منظور کی گئی تھی۔ انہوں نے جمعہ کی رات کہا کہ یہ رقم میرے دوست مودی کی حکومت کو دی جانے والی تھی۔ مقصد صرف یہ تھا کہ ووٹرز ٹرن اوور بڑھ جائے۔
بھارتی میڈیا میں یہ بات نمایاں طور پر بیان کی جارہی ہے کہ امریکی صدر کو خود اپنے اداروں کی بین الاقوامی فنڈنگ کے بارے میں کافی معلومات میسر نہیں۔ اب ٹرمپ کا کہنا ہے کہ 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر بنگلا دیش کی ایک ایسی این جی او کو دیے گئے جس کے بارے میں لوگ نہیں جانتے اور اِس میں صرف دو افراد کام کرتے ہیں۔
بھارت کے لیے منظور کی جانے والی امریکی امداد کے حوالے سے میڈیا میں اتنی باتیں آچکی ہیں کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ معاملہ آخر ہے کیا۔ مودی اور ٹرمپ دونوں کے لیے یہ معاملہ گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی جیسا ہوگیا ہے۔