روشنیوں کا شہر کراچی، کہیں کھو گیا

158

کراچی، جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، آج بے شمار مسائل میں الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ شہر رات بھر جاگتا تھا، بازار روشن رہتے تھے، سڑکیں محفوظ تھیں، اور شہری زندگی کی رونقیں عروج پر تھیں۔ مگر اب، مہربان حکمرانوں نے شہر کراچی کو جہنم میں بدلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی بدامنی اپنے عروج پر ہے۔

بدترین ٹریفک کی وجہ سے آئے روز شہری کسی نہ کسی حادثے کی صورت میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ حکمرانوں نے اس شہر کو مختلف مافیا کے حوالے کر دیا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ شہر کراچی میں رہنے والا ایک عام آدمی جب صبح اپنے گھر سے رزق حلال کی تلاش میں نکلتا ہے تو اسے نہیں معلوم ہوتا کہ آج وہ اپنے گھر خیر سے پہنچے گا یا کسی ٹینکر، ڈمپر مافیا یا کسی ڈکیتی کی واردات کا نشانہ بن کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ خوش قسمتی سے اگر ان تمام مصیبتوں سے بچ کر شام کو گھر لوٹ بھی جائے تو ایک اور مافیا جسے کے الیکٹرک کے نام سے جانا جاتا ہے وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ ویسے تو کراچی کے مختلف علاقوں میں 10 سے 15 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ عام ہے لیکن اس کے بعد بھی بجلی ہوتی نہیں اور اگر ہوتی ہے تو گھر پر آئے بھتے کی صورت میں بھاری بھرکم بجلی کا بل اس کی بچی کھچی جان لے لیتا ہے۔ رواں سال 1 جنوری 2025 سے 19 فروری 2025 تک ٹینکر اور ڈمپر مافیا کی زد میں آکر شہید ہونے والے کراچی کے باعزت شہریوں کی تعداد لگ بھگ 108 کے قریب ہو گئی ہے۔ نئے سال کا پہلا مہینہ ہی کراچی والوں پر بھاری رہا، ماہ جنوری کے دوران کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے 45 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 5 خواتین بھی شامل تھیں پولیس کا کہنا تھا کہ 20 جنوری کو سب سے زیادہ یعنی 7 افراد جان بحق ہوئے جبکہ 24 جنوری کے دن مختلف فائرنگ کے واقعات میں 5 افراد لقمہ اجل بنے جب کہ رواں سال کے دوسرے مہینے 17 فروری 2025 تک 8 شہری ڈکیتی کی وارداتوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

ظلم کی انتہا یہ ہے کہ رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کے آغاز سے قبل ہی غیر مقامی کراچی کا رخ کر لیتے ہیں جس کی بدولت شہر میں مزید جرائم کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ لگے سحری اور افطاری کے دسترخوانوں سے بآسانی کھانا دستیاب ہو جاتا ہے۔ مختلف جگہوں سے بہترین پیٹ پوجا کرنے کے بعد اپنے اصل کام کی طرف یعنی شہر کراچی کی عوام کو لوٹنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو کافی عرصے سے جاری ہے ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال رمضان المبارک میں کراچی میں 4000 سے زائد وارداتیں ہوئیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ان غیر مقامی باشندوں کو شہر کراچی میں بہت حد تک قابو کرنے میں ناکام اور بے بس نظر آتے ہیں۔

کراچی پاکستان کا وہ شہر ہے جو پورے پاکستان کے لیے معاشی اعتبار سے ٹرین کے انجن کی مانند ہے لیکن بدقسمتی سے برسوں سے حکمرانوں کی بے حسی اور عدم توجہی کی وجہ سے سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اور پانی کی قلت عام شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا رہی ہے۔ جہاں پہلے لوگ بلا خوف و خطر رات گئے تک گھومتے تھے، آج وہاں بدامنی اور بے یقینی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ لیکن کراچی آج بھی امید کا استعارہ ہے۔ اگر حکام سنجیدگی سے شہر کے بنیادی مسائل اور بدامنی پر توجہ دیں، تو یہ روشنیوں کا شہر دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی چمک حاصل کر سکتا ہے۔ شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی ذمے داری سمجھیں اور اپنے شہر کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔