ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا!

104

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معیشت کا ڈی۔ این۔ اے، ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ٹھیک ہو گا اس کے بغیر معیشت کی بہتری مشکل ہے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا، رائٹ سائزنگ کا مکمل منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ پرچون فروشوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے دعویٰ کیا کہ ملک کی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں کو فائدہ ہو رہا ہے جب کہ حکومت معیشت کے تمام شعبوں میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے، اصلاحات سے ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا وزیر اعظم اور ان کی ٹیم معاشی استحکام کے لیے پر عزم ہے، رائٹ سائزنگ کے لیے مکمل پلان تیار کیا ہے، اداروں کے تمام معاملات کو دیکھ کر ہی رائٹ سائزنگ کی جائے گی، نجکاری کے عمل کو مزید شفاف کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشی اہداف کا مکمل ادراک ہے، حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، پائیدار معاشی استحکام کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں گے، ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا معیشت میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ 19 فی صد ہے جب کہ ٹیکس میں ریٹیل سیکٹر کا حصہ ایک فی صد ہے، مصنوعی ذہانت استعمال کر کے ٹیکس بڑھائیں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا 9.4 ٹریلیں کیش کی ڈاکیومینٹیشن کرنی ہے، قومی ائر لائن کی نجکاری کو ری لانچ کر رہے ہیں۔ 30 جون تک تمام اداروں کی رائٹ سائزنگ کا عمل مکمل کریں گے۔ مینوفیکچرنگ، سروسز اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ غیر متناسب ہے، زرعی انکم ٹیکس کے حوالہ سے پیش رفت خوش آئند ہے۔ مسلسل تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس لینا مسئلے کا حل نہیں، تنخواہ دار طبقے کے علاوہ باقی شعبوں کو بھی ٹیکس آمدن میں حصہ ڈالنا ہو گا۔ زرعی شعبہ معیشت میں زیادہ حصہ دار ہے لیکن ٹیکس میں اس کا حصہ کم ہے، ٹیکس کی چوری میں سخت فیصلے کریں گے۔ مسلسل ٹیکس چوری سے امور حکومت نہیں چلائے جا سکتے، سیلز ٹیکس کی چوری اور جعلی انوائس اب قابل قبول نہیں ہو گی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے معیشت کی اصلاح اور درستی کے حوالے سے جن امور کی نشاندہی کی ہے اور جن نکات کی وضاحت کی ہے وہ بڑی حد تک درست سمت میں حکومت کے سفر اور مثبت پیش رفت کے آئینہ دار ہیں، ملکی معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر وفاقی وزیر خزانہ کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ملک بے جامراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا یہ نہایت اہم نکتہ ہے جس کی جانب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان اور ملک و قوم کا درد رکھنے والے دیگر اہل فکر و دانش بھی بار ہا ارباب اختیار اور ملکی امور کے فیصلہ سازوں کو متوجہ کر چکے ہیں، خود وزیر اعظم نے ایک سے زائد بار قومی وسائل کے استعمال میں بچت کی ضرورت کا تذکرہ کیا ہے، اب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی بے جا مراعات کا خاتمہ ملکی معیشت کی اصلاح کے لیے لازمی قرار دیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان بھی قومی وسائل کی بچت کا احساس اور ادراک رکھتے ہیں تو پھر اس میں رکاوٹ کون ہے جو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ پر بھی بھاری ہے۔ ویسے وزیر اعظم قومی خزانہ پر بے جا مراعات کا بوجھ کم کرنے میں اگر واقعی سنجیدہ ہوں تو انہیں اس کا آغاز ’’اول خویش، بعد درویش‘‘ کے مصداق اپنی ذات اور اپنی کابینہ کے ارکان سے کرنا ہو گا۔ اوّل تو پہلے وفاقی اور پھر صوبائی کابینائوں کے ارکان کی تعداد کم اور محدود کرنے پر توجہ دی جائے جب ہم سے کہیں زیادہ بڑے اور با وسائل ممالک ہم سے کہیں مختصر کابینہ کے ساتھ امور مملکت احسن انداز میں چلا رہے ہیں تو ہم وسائل کی کمی کا رونا بھی روتے رہیں اور وزراء کی فوج ظفر موج بھی قومی خزانے پر بوجھ بنی رہے، اس کا بہر حال کوئی جواز نہیں۔ کابینہ مختصر ہو اور وزیر اعظم اور باقی وزراء بھی پروٹوکول اور سیکورٹی وغیرہ کے نام پر حاصل مراعات میں خاطر خواہ کمی کریں تو ایک جانب پروٹوکول ڈیوٹی پر متعین پولیس، انتظامیہ اور عوامی خدمت کے اداروں کی گاڑیاں اور عملہ کے افراد فارغ ہو کر ملک و قوم کی بہتر اور زیادہ ضرورت کے شعبوں میں خدمات انجام دے سکیں گے اور دوسری جانب پٹرول، گاڑیوں کی مرمت وغیرہ اور اسٹاف کی تنخواہوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کی بچت ہو سکے گی اور یہ جو آئے روز خبریں شائع ہوتی ہیں کہ وزیر اعظم کی ’بچت مہم‘ کے باوجود ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم وغیرہ کے اخراجات میں خطیر اضافہ ہو گیا ہے۔ اخراجات میں یہ اضافہ رک جائے گا اور ’بچت مہم‘ واقعی نتیجہ خیز ہو سکے گی جس کے بعد وزیر اعظم صوبائی حکومتوں اور نچلی سطح کے با اختیار حکام کے شاہانہ اخراجات اور پروٹوکول سے بھی قوم کو نجات دلانے میں خاصی آسانی محسوس کریں گے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سو فی صد درست کہا ہے کہ ملک بے جا مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مگر ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے ایف بی آر کے چیئرمین اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے ارکان کے مابین ایک ہزار سے زائد لگژری گاڑیوں کی خرید کے معاملہ میں جو کھینچا تانی جاری تھی، اس کے متعلق انہوں نے بھی لب کشائی سے گریز کیا ہے کہ یہ گاڑیاں بھی ’بے جا مراعات‘ کے زمرے میں آتی ہیں یا نہیں۔ وزیر خزانہ نے بہت سے شعبوں مثلاً پرچون فروش اور زراعت کے ملکی معیشت میں تناسب سے بہت کم ٹیکس دینے کا شکوہ بھی کیا ہے ان کا یہ شکوہ بے جا بھی نہیں تاہم وہ اگر اس کے اسباب کا جائزہ لیں گے تو معاملہ ’’ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا‘‘ سے مختلف نہیں ہو گا۔ وزیر خزانہ ایف بی آر اور دیگر متعلقہ محکموں میں بدعنوانی اگر ختم نہیں تو پچاس فی صد بھی کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، ان محکموں اور اداروں کے حکام اور اہلکاروں کا رویہ اور طرز عمل درست ہو جائے تو یقین ہے کہ وزیر خزانہ کا شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ لوگوں کو اعتماد ہو کہ وہ جو ٹیکس ادا کر رہے ہیں وہ ’’بے جا مراعات‘‘ پر نہیں بلکہ عوامی مسائل اور مشکلات میں کمی پر خرچ کیا جائے گا اور صرف جائز ٹیکس وصول کیا جائے گا، ٹیکس دہندہ کو تنگ کر کے رشوت کا ریٹ بڑھانے کی خاطر ناجائز بھاری ٹیکسوں کے نوٹس بلاوجہ بھجوا کر سودے بازی پر مجبور نہیں کیا جائے گا تو معاشرے کا ایک بڑا حصہ از خود ٹیکسوں کی ادائیگی پر آمادہ ہو گا کیونکہ اس وقت بھی صاحب نصاب و استطاعت ہر سال اپنی دلی آمادگی سے خوشی خوشی کھربوں روپے زکوٰۃ و صدقات کی مد میں ادا کرتے ہیں حکومت اگر لوٹ مار کے انداز میں اندھا دھند بھاری اور ناقابل برداشت ٹیکس عائد کرنے کے بجائے مناسب شرح سے صرف جائز ٹیکس عائد کرے اور عوام کے لیے سہولت فراہم کی جائے تو لوگوں کو ٹیکسوں کی از خود ادائیگی پر آمادہ کرنا بہت زیادہ مشکل اور نا ممکن الحصول ہدف نہیں لیکن اگر عوام کو یہ معلوم ہو کہ پہلے سے بے پناہ مراعات یافتہ طبقہ کے سینیٹ و قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور وزراء کرام قومی خزانے کی زبوں حالی اور عام آدمی کی غربت، بے روز گاری اور جان لیوا مہنگائی کا خیال کیے بغیر اپنی تنخواہوں اور مراعات میں بیک جنبش قلم آٹھ نو سو فی صد تک از خود اضافہ کر لیں گے اور کسی کو بھی پہلے سے قرضوں اور سود در سود کے بوجھ تلے دبے قومی خزانے پر پڑنے والے مزید ناروا بوجھ کا احساس تک نہیں ہو گا تو آخر لوگ خوشی سے ٹیکس کیوں دیں گے۔