افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

149

تبلیغ کے لیے قرآن و حدیث کا علم

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا پورا علم حاصل کیے بغیر کسی کو تبلیغ کا حق نہیں ہے، ان سے دریافت کیجیے کہ: پورے علم کی تعریف کیا ہے؟ اس کی حد کیا ہے؟ اور اس کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ پیمایش کیسے ہوگی کہ کسی کو پورا علم حاصل ہوگیا کہ نہیں؟ جن لوگوں کی عمریں قرآن و حدیث پڑھتے پڑھاتے ہوئے گزر گئی ہیں، وہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ انھیں پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ جو آدمی صحیح معنوں میں عالم ہوتا ہے، وہ مرتے دم تک طالب علم رہتا ہے۔ کبھی اس کے دماغ میں یہ ہوا نہیں بھرتی کہ مَیں پورا عالم ہوگیا ہوں اور مجھے پورا علم حاصل ہوگیا ہے۔ اس لیے یہ بات صحیح نہیں کہ ’پورا علم‘ حاصل کیے بغیر تبلیغ کرنا درست نہیں۔
٭…٭…٭
یہ بھی دیکھا جائے کہ رسولؐ کے زمانے میں جو بدوی آکر مسلمان ہوتے تھے اور پھر اپنے قبیلوں میں جاکر تبلیغ کرتے تھے، وہ کب پورے عالم بن کر جاتے تھے۔ بس دین کی بنیادی باتیں انھیں معلوم ہوجاتی تھیں۔ وہ یہ جان لیتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ ہمارے فرائض کیا ہیں، کون کون سی چیزیں ہمارے لیے ممنوع ہیں، اور کن کن کی اجازت ہے؟ یہ باتیں وہ جان لیتے تھے اور جاکر لوگوں میں خدا کے دین کی تبلیغ شروع کر دیتے تھے اور پورے پورے قبیلوں کو مسلمان بنا لیتے تھے۔
٭…٭…٭
دوسرا سوال ہے عمل نہ ہوتے ہوئے تبلیغ کرنے کے متعلق… اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف بلانا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ ایک آدمی اگر شیطان کے راستے کے بجاے اللہ کے راستے کی طرف بلا رہا ہے اور اس کے اپنے عمل میں خامی ہے، تو اس کا اللہ کے راستے کی طرف بلانا تو غلط نہیں ہے۔ اسے اس کام سے نہ روکیے اور نہ اس پر اعتراضات کیجیے۔ اصل چیز یہ ہے کہ جب ایک آدمی یہاں تک آپہنچتا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتا ہے، انھیں بْرائیوں سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے سامنے حق پیش کرتا ہے، تو اْمید رکھنی چاہیے کہ یہ عمل اس کی اپنی زندگی کو بھی درست کردے گا۔ جب وہ یہ کام کرے گا تو وہ خود ہر وقت اپنے عمل اور زندگی پر بھی نظر دوڑائے گا، اور آہستہ آہستہ اپنی اصلاح بھی کرلے گا۔ اب جو آدمی خود بخود غلط سے صحیح راستے کی طرف آرہا ہے اگر آپ اسے بار بار ٹوکیں گے اور اس طرح اس کے واپس لوٹ جانے کا سبب بنیں گے، تو میرا خیال ہے کہ آپ خدا کے ہاں ماخوذ ہوں گے۔ آپ کے اس طرح ٹوکنے کا نتیجہ یہی تو نکل سکتا ہے کہ وہ خدا کے راستے کی طرف نہ بلائے، حق بات نہ کہے اور لوگوں کو خدا کی بندگی کی طرف دعوت نہ دے۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت غلط بات ہے۔ اگر اس کے عمل میں کوئی خرابی ہے تو، توقع کیجیے کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی۔
٭…٭…٭
حدیث میں آتا ہے کہ آپؐ سے ایک شخص کے متعلق پوچھا گیا کہ وہ دن کو نمازیں پڑھتا ہے اور رات کو چوریاں کرتا ہے۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
رسولؐ نے فرمایا: اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، یا تو چوری اس سے نماز چھڑوا دے گی، یا نماز اس سے چوری چھڑوا دے گی۔ یہ تو ہے رسولؐ کی دی ہوئی تعلیم۔ اب اگر ایک آدمی اصلاح کے جوش میں آکر ایسے شخص سے یہ کہے کہ: کم بخت جب تو چوری کرتا ہے تو تیری نماز کس کام کی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی اصلاح کی آخری اْمید بھی منقطع کرنا چاہتے ہیں۔ چوری میں تو وہ مبتلا ہے ہی، اب آپ اس سے نماز بھی چھڑوانا چاہتے ہیں۔ نماز ایک آخری رشتہ ہے جس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مکمل بھلائی کی طرف پلٹ آنے میں اس کی مدد کرے۔ لیکن آپ وہ رشتہ بھی جوشِ اصلاح میں کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ اپنے نزدیک تو آپ نے بڑی اصلاح کی بات کی، لیکن حقیقت میں آپ نے اسے جہنم کی طرف دھکیلنے میں حصہ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ نے یہ نہیں فرمایا: جب وہ شخص چوری کرتا ہے تو نماز سے اسے کیا حاصل؟‘ بلکہ یہ فرمایا: اْسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ ایک وقت آئے گا کہ یا تو اس کی نماز اس سے چوری چھڑا دے گی یا چوری نماز چھڑا دے گی‘۔