پاکستان کے سینئر سیاست ، تین بار کے سابق وزیر اعظم اور اپنے نام سے منسوب مسلم لیگ نواز کے موجودہ صدر میاں محمد نواز شریف آہستہ آہستہ اقتدار سے محرومی اور چوتھی بار وزیر اعظم نہ بن سکنے کے صدمہ سے نکل رہے ہیں، چنانچہ وزیر اعظم نہ سہی، وزیر اعظم کا بڑا بھائی اور برسراقتدار مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے حاکمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اب کس کو تعمیر و ترقی کے سفر میں رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، سیاست اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور قدروں سے ناواقف گروہ کو اب لانگ مارچوں، دھرنوں اور پر تشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لاہور کے نواح میں رائے ونڈ کے اپنے جاتی عمرہ کے شاہی محلات میں سابق صحافی و کالم نویس، سینیٹ میں نواز لیگ کے پارلیمانی لیڈر اور امور خارجہ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی سے ملاقات کے دوران میاں نواز شریف نے مزید فرمایا کہ مصنوعی سیاسی بحران پیدا کرنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ 2013ء میں تعمیر و ترقی اور عوامی خوش حالی کا سفر اسی رفتار سے جاری رہتا تو آج ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہوتی نہ کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی۔ عوام اور بالخصوص ہماری نوجوان نسل کو پر امن اور ترقی کرتے ہوئے پاکستان کی ضرورت ہے جہاں انہیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق کردار ادا کرنے کے مواقع حاصل ہوں۔ اب ملک اللہ کے فضل و کرم سے ایک بار پھر اپنے پائوں پر کھڑا ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ان عناصر کے عزائم کو بے نقاب کرنا چاہیے جو انتشار پھیلانے اور عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ لوگ سنجیدہ مذاکرات کرنے اور سیاسی افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کو موثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور عوام سے مضبوط رابطے رکھنے چاہئیں۔ میاں نواز شریف کا شمار اب ملک کے سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے انہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ اعلیٰ سطح پر سیاست کرتے بسر کیا ہے اور ایوان اقتدار کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف میں بھی خاصا وقت گزارا ہے، اور توقع کی جاتی ہے کہ وقت کے اتار چڑھائو سے انہوں نے سیاست کے رموز سے بھی شناسائی حاصل کر لی ہو گی مگر مجلس شوریٰ کے ایوان بالا میں اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر سے گفت گو میں انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے، وہ اس بات کا عکاس ہے کہ وہ ابھی تک شاہانہ طرز گفتار اور اپنے خاندان کے حق حاکمیت کے تصور سے جان نہیں چھڑا سکے۔ چنانچہ ایک جانب اگر ان کے برادر خورد وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر ملک کی فیصلہ کن قوتوں کے اشاروں پر وطن عزیز کے عدالتی نظام کو مخصوص قوتوں کے تابع رکھنے کے لیے قانون سازی اور عملی اقدامات میں تمام حدوں کو پھلانگتے چلے جا رہے ہیں اور آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹنے کے لیے ذرائع ابلاغ اور ارباب صحافت سمیت تمام اہم ملکی اداروں پر مکمل کنٹرول کی خاطر نت نئے قوانین بنا اور نئے نئے حربے آزما رہے ہیں تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف بھی مکمل آمرانہ طرز فکر و عمل کو اختیار کیے ہوئے ہیں چنانچہ سینیٹر عرفان صدیقی سے ملاقات میں یہ حکم جاری فرماتے ہوئے کہ اب لانگ مارچوں، دھرنوں اور پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی، محترم میاں صاحب اس حقیقت کو فراموش کر رہے ہیں کہ احتجاج کا حق، ان کی اجازت کا مرہون منت نہیں بلکہ مملکت کا آئین اپنے عوام کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے جائز حقوق کے حصول اور تحفظ کی خاطر حکمرانوں کے غیر قانونی اقدامات اور طرز عمل کے خلاف جلسے بھی کر سکتے ہیں، جلوس بھی نکال سکتے ہیں، دھرنے بھی دیے جا سکتے ہیں اور لانگ مارچ سے بھی انہیں روکا نہیں جا سکتا۔ خود میاں نواز شریف اور ان کی جماعت ماضی میں اس آئینی حق کا بکثرت استعمال کرتی رہی ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں میاں صاحب کی ہدایت پر ان ہی کی قیادت میں چلائی جانے والی ’’تحریک نجات‘‘ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لیے میاں صاحب کی زیر قیادت اسلام آباد کی جانب کیا جانے والا لانگ مارچ، ابھی عمران خاں کی حکومت میں، مہنگائی مارچ، الیکشن کمشنر کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنا اور چیف جسٹس کی عدالت پر نواز لیگ کے رہنمائوں کی چڑھائی وغیرہ اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں نہ جانے میاں صاحب ماضی قریب کی اپنی اس تاریخ کو اتنی جلدی کیوں بھلا بیٹھے ہیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے مابین اتحاد اور حکومت کے خلاف موثر احتجاجی تحریک منظم کیے جانے کی خبروں نے میاں صاحب کو ایک اندرونی خوف میں مبتلا کر دیا ہے جس کا اظہار سینیٹر عرفان صدیقی سے ان کی گفتگو میں نمایاں ہے، میاں صاحب اپنے تجربے اور عمر کے لحاظ سے جس مقام پر پہنچ چکے ہیں، اگر ان میں ملک و قوم کا درد موجود ہے تو اس دھمکی آمیز اور آمرانہ طرز عمل کے بجائے ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خود کو اپنے خاندان تک محدود رکھنے کے بجائے ذرا بلند تر سطح کی سوچ کو اپنائیں اور ملکی سیاست میں پائی جانے والی تلخی کی شدت کو کم کرنے کے لیے کوئی موثر کردار ادا کریں، وہ اگر مصالحت اور مفاہمت کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ملک کی مختلف سیاسی قوتوں سے رابطے کر کے ملکی سیاست کو مفاہمت کے راستہ پر چلانے کے لیے عملی کوشش کریں تو اس کے مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے اور ملک کو موجودہ انتشار اور سیاسی و معاشی عدم استحکام سے نکالنے کے لیے میاں صاحب با معنی اور نتیجہ خیز کردار ادا کر سکتے ہیں جس سے قومی سیاست میں ان کے قد و قامت میں بھی یقینا اضافہ ہو گا۔ میاں نواز شریف نے اگرچہ اپنی سیاست کا آغاز جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں کیا اور انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جنرل ضیاء الحق ہی کا سیاسی وارث تصور کیا جاتا ہے تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ انہوں نے اپنے مخالف جنرل پرویز مشرف کا اقتدار بھی بھگتا ہے، جس کے دوران بھی وہ اگرچہ معاہدہ کر کے خاندان سمیت سیاست سے کنارہ کشی کر کے، سعودی عرب میں جا مقیم ہوئے تھے مگر اس سب کے باوجود انہیں سیاست کے مختلف ادوار کے اتار چڑھائو سے اتنا تو ضرور سیکھ لینا چاہیے تھا کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ اور نہ ہی اقتدار کے جبر اور ظالمانہ ہتھکنڈوں سے عوام کے احتجاج کو روکا جا سکتا ہے، یہاں ذوالفقار علی بھٹو جیسا خود کو نہایت شاطر اور طاقت ور تصور کرنے والا اور ’’میری کرسی بہت مضبوط ہے‘‘ کے دعوے کرنے والا حکمران بھی عوامی احتجاج کو منظم ہونے سے روک سکا تو میاں نواز شریف کی جماعت کی حکومت تو پہلے ہی فارم 47 کی مرہون منت اور اقتدار کے لیے غیر جمہوری قوتوں کی دست نگر تصور کی جاتی ہے، ایسی حکومت بھلا عوامی ریلے کے سامنے کیوں کر ٹھیر سکتی ہے، پھر جب بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روز گاری اور غربت بھی مضبوط جواز کے طور پر موجود ہوں تو خالی خولی دھمکیوں یا طاقت کے زعم میں عوامی احتجاج کو بہر حال روکا نہیں جا سکتا…! بڑے میاں صاحب نے اپنی گفتگو میں اپنے ارکان پارلیمنٹ کو عوام سے رابطے مضبوط کرنے اور موثر کردار ادا کرنے کی تلقین کی ہے تاہم میاں صاحب کو ان ارکان پارلیمنٹ کی مجبوریوں کا احساس بھی کرنا چاہیے کہ جن سیاست دانوں کی جڑیں عوام میں نہ ہوں اور جن کی اپنی کامیابی اور اقتدار تک رسائی عوام کی پذیرائی کے بجائے فارم 47 کی مرہون منت ہو، ان کے لیے عوام کا سامنا کرنا اور سیاست میں کوئی موثر کردار ادا کرنا آسان نہیں ہوا کرتا۔