چین میں پاکستانی طلبہ نے ہمت اور انسانیت دِکھا کر ملک کا نام روشن کر دیا

220

بیجنگ:چین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے 2پاکستانی طلبہ یوسف خان اور رفیق اللہ نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس نے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر دیا ہے۔ ان دونوں نے ایک ہنگامی کی صورت حال کو بھانپتے ہوئے بے مثال ہمت اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے وہ چین میں ہیرو بن گئے۔

یوسف خان اور رفیق اللہ چین میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسی دوران وہ سیاحت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر موجود تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک بزرگ شہری زمین پر گرے ہوئے ہیں اور پولیس اہلکار ان کے ارد گرد کھڑے ہیں۔ چین میں کسی بھی شخص کو بغیر اجازت ہاتھ لگانا غیر قانونی ہے، چاہے وہ طبی امداد کے لیے ہی کیوں نہ ہو،تاہم یوسف اور رفیق نے پولیس سے اجازت لے کر فوری طور پر مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

یوسف اور رفیق نے دیکھا کہ بزرگ شہری کی نبض کم رفتار سے چل رہی تھی، دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی اور سانس اکھڑ رہی تھی۔ میڈیکل کالج کے فائنل ایئر کے طلبہ ہونے کی وجہ سے وہ جانتے تھے کہ یہ علامات دل کے دورے کی ہیں۔ انہوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کارڈیو پلمونری ری سسٹیکیشن (CPR) کرنے کا فیصلہ کیا۔

یوسف نے اپنے دونوں ہاتھ متاثرہ شخص کی چھاتی پر رکھ کر سی پی آر کرنا شروع کیا جب کہ رفیق نے وقفے وقفے سے منہ کے ذریعے سانس دی۔ یہ عمل مسلسل دہرائے جانے کے چند ہی لمحوں میں متاثرہ شخص کی سانس بحال ہونا شروع ہو گئی۔ یہ پورا واقعہ سی سی ٹی وی کیمرے میں محفوظ ہو گیا اور جلد ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔

سی سی ٹی وی فوٹیجز وائرل ہونے کے بعد یوسف اور رفیق چین میں ہیرو بن گئے۔ چینی میڈیا نے ان کا انٹرویو لیا اور ان کی ہمت اور ہمدردی کو سراہا۔ چین میں پاکستان کے سفارت خانے نے بھی سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے ان دونوں طلبہ کو خراج تحسین پیش کیا۔

یوسف خان اور رفیق اللہ کے اس کارنامے نے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر دیا ہے۔ ان کی ہمت، ہمدردی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں نے ثابت کیا کہ پاکستانی نوجوان کسی بھی مشکل صورت حال میں بہترین فیصلے کر سکتے ہیں۔

یوسف خان اور رفیق اللہ کی کہانی نہ صرف پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ انسانیت کی خدمت کسی بھی قانون سے بالاتر ہے۔ ان دونوں طلبہ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ پاکستانی نوجوان کسی بھی ملک میں جا کر اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا انہیں اس کارنامے کے لیے کوئی قومی اعزاز دیا جاتا ہے یا نہیں۔