(3)
مجھے یاد ہے کہ دہلی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا اور سومناتھ بھارتی نے رشید کے سیاسی ماڈل کو سمجھنے کے لیے کئی بار کئی دنوں تک لنگیٹ کے دیہاتوں کا دورہ کیا۔ کئی افراد کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماڈل پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف سے مستعار لیا تھا، جو انہی وعدوں کو لیکر سیاسی میدان میں تھے۔ اقتدار میں آتے ہی، جوں جوں کیجری وال کی حقیقت کھلتی گئی، پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی شدت اختیار کرنے لگے۔ 2015 میں پرشانت بھوشن اور یوگندر یادو جیسے بانی رہنماؤں کو اس وجہ سے پارٹی سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے کیجریوال کے طرزِ قیادت پر سوال اٹھائے تھے۔ جو تحریک عوام کی شمولیت اور اجتماعی فیصلوں کے اصولوں پر کھڑی ہوئی تھی، وہ جلد ہی ایک شخصیت پر مبنی تنظیم بن گئی۔ کیجریوال کے اختلافِ رائے کو برداشت نہ کرنے کی روش نے کئی بانی اراکین کو پارٹی سے دور کر دیا۔ جو لوگ ملک کو بدلنے نکلے تھے، وہ خود بدل گئے۔ جب 2015 میں اروند کیجریوال نے بطور وزیر اعلیٰ گورنر ہائوس کے بجائے دہلی کے پرانے شہر سے متصل رام لیلا گراونڈ میں عوامی اجتماع میں حلف لیا۔ مجھے یاد ہے کہ حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا: ’’دوستو، جب کسی کو ایسی شاندار جیت ملتی ہے تو اس میں غرور آنے کا خدشہ ہوتا ہے اور اگر غرور آ جائے، تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہمیں ہر وقت محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں مسلسل اپنے اندر جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم میں غرور تو نہیں آ رہا۔ اگر ایسا ہوا تو ہم کبھی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے‘‘۔ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ غرور نے کانگریس کو زوال تک پہنچایا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ خود اسی غرور کے شکار ہو گئے اور پارٹی کو بحران میں دھکیل دیا۔
کیجری وال کی شناخت ہی کرپشن کے خلاف ان کی بے لچک مہم تھی۔ بطور انڈین ریونیو سروس افسر، وہ رشوت طلب کرنے والے افسران کو بارہا بے نقاب کرتے رہے۔ محکمہ انکم ٹیکس میں کام کے ساتھ ساتھ، انہوں نے ’’پریورتن‘‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی، جو دہلی کے پسے ہوئے طبقات کو بیوروکریسی کی رکاوٹوں سے نجات دلانے میں مدد دیتی تھی۔ انہوں نے اطلاعات کے حق (RTI) قانون کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو کرپٹ سرکاری افسروں کے چنگل سے آزادی دلائی۔ یہی وہ اصول تھے جن پر عام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ اصول خود پارٹی کی سیاست کی نذر ہو گئے۔ آج وہی جماعت، جو کبھی انقلاب کا استعارہ سمجھی جاتی تھی، خود ایک نئی داستانِ عبرت بن چکی ہے۔ ٹیکس ریفنڈ میں تاخیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے، پریورتن کے رضاکار متعلقہ افسر کے پاس متاثرہ شخص کو لے کر جاتے اور ریفنڈ کی تاریخ دریافت کرتے۔ مقررہ دن، وہ موسیقی کے آلات کے ساتھ انکم ٹیکس آفس پہنچ جاتے تھے۔ اگر ریفنڈ دینے سے انکار کیا جاتا تو وہ فرش پر بیٹھ جاتے، گیت گاتے، ڈھول بجاتے۔ یہاں تک کہ ریفنڈ جاری کر دیا جاتا۔ ایک بار ایک شخص سے انکم ٹیکس افسر نے اس کا ریفنڈ کلیئر کرنے کے لیے پچیس ہزار روپے رشوت طلب کی۔ کیجریوال کی سربراہی میں پریورتن کے رضاکار چند صحافیوں کے ساتھ ایک جلوس کی شکل میں ڈھول اور باجے بجاتے ہوئے نکلے اور رشوت کی رقم کا چیک لے کر سرعام اس افسر کو پیش کرنے پہنچ گئے۔ افسر پچھلے دروازے سے فرار ہو گیا، مگر محکمہ نے فوری اس شخص کا ریفنڈ جاری کردیا۔ اسی طرح کسی بستی میں اگر بجلی کا ٹرانسفارمر خراب ہوکر نہیں لگایا جاتا تو اسی طرح وہ بجلی دفتر پہنچ کر وہاں گانا بجانا شروع کر دیتے تھے۔ بیوروکریسی کے ستائے ہوئے افراد کے لیے وہ ایک سہارا بن گئے تھے۔ مایانک گاندھی کے مطابق کیجریوال کے دست راست اور سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے ان کو ایک بار بتایا ’’مایانک بھائی، اصول کتابوں میں اچھے لگتے ہیں لیکن ہم اب جنگ میں ہیں، اور ہمیں کچھ چیزوں کو چھوڑنا ہوگا‘‘۔ اس طرح سمپورن کرانتی (کلّی انقلاب) کا نعرہ خاموشی سے سیاسی سمجھوتے میں تبدیل ہو گیا۔
جو جماعت اندرونی جمہوریت اور عدم مرکزیت کا وعدہ کر رہی تھی، وہ تیزی سے کیجری وال کے گرد گھومنے والی شخصیت پرست جماعت بن گئی۔ اختلافِ رائے دبایا جانے لگا اور چاپلوسی کی ثقافت پروان چڑھنے لگی۔ دہلی کے اراکین اسمبلی، جنہیں اپنے حلقوں پر توجہ دینی تھی، دیگر ریاستوں میں تعینات کیے گئے، جہاں وہ مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتے اور صرف وہ مقامی رہنما منتخب کرتے جو کیجری وال کے قریبی حلقے کے وفادار ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمینی سطح کے باصلاحیت رہنما پس ِ پردہ چلے گئے۔ بی جے پی کے غلبے والی ریاستوں میں کانگریس کی جگہ لینے کی خواہش کے باوجود، پارٹی کی کمزور تنظیم اور مقامی سطح پر مضبوط قیادت کی کمی نے اس کے عزائم کو نقصان پہنچایا۔ بد عنوانی کے خلاف وجود میں آئی پارٹی کو بد عنوانی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر قانون جیتندر سنگھ تومر کی جعلی ڈگری اسکینڈل پر کیجریوال کا مؤقف عجیب سا تھا۔ بجائے وہ اپنے وزیر کو کٹہرے میں کھڑا کرکے اس سے جواب طلب کرتے، وہ ان کا دفاع کرنے لگے۔ مگر ناقابل تردید ثبوتوں کے بعد انہیں اپنا مؤقف بدلنا پڑا۔ مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ اسی طرح 2016 میں، پارٹی نے اپنی ویب سائٹ سے چندہ دہندگان کی فہرست ہٹا دی، تو شفافیت کے عزم پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔
جب 2022 میں، دہلی حکومت نے نئی ایکسائز پالیسی متعارف کروائی تاکہ شراب کی فروخت کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا سکے، یہ ایک طرح سے اس پوری تحریک کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس پالیسی سے مبینہ طور پر مخصوص نجی کمپنیوںنے فائدہ اٹھایا اور الزام ہے کہ ان سے پارٹی فنڈ کے لیے موٹی رقوم لی گئیں۔ اس کیس میں ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا سمیت کئی اہم رہنما ملوث پائے گئے۔ فروری 2023 میں سسودیا کو گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ 2024 میں، وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو بھی حراست میں لے لیا گیا، جو بھارت کی تاریخ میں پہلی بار کسی برسرِ اقتدار وزیر اعلیٰ کی گرفتاری تھی۔ اسی طرح منیش سسودیا پر اسکولوں کی تعمیر میں مالی بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے۔ عآپ اب بھی ایک قومی جماعت ہے۔ پنجاب میں یہ حکومت چلا رہی ہے اور پارلیمنٹ میں 13 نشستیں رکھتی ہے۔ تاہم، اس کے توسیعی منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ سال 2022 میں، دہلی سے باہر اسے سب سے بڑی انتخابی کامیابی پنجاب میں ملی، جہاں اس نے روایتی کانگریس-اکالی دل اقتدار کے دو قطبی نظام کو شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، جس نے اسے قومی پارٹی کا درجہ دلایا اور یہ عندیہ دیا کہ اس کا طرزِ حکمرانی دوسرے علاقوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن پنجاب میں حکومت چلانا نئے چیلنجز لے کر آیا۔ ایک ایسے صوبے کا انتظام سنبھالنا، جو گہرے زرعی بحران اور منشیات کے مسئلے میں جکڑا ہوا ہے، دہلی کی حکومت چلانے سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ آپ کی سیاسی سمت ایک سبق آموز کہانی ہے۔ (بشکریہ: 92نیوز)