بھارت میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بلند کرنے کے لیے امریکی امداد کی بندش نے بھارت میں ہنگامہ برپا کردیا ہے۔ بھارتی میڈیا میں امریکا کے 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کا غلغلہ ہے۔ ایلون مسک نے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اخراجات میں کمی لانے کی پالیسی کے تحت بیرونی امداد میں کٹوتی کردی ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں جمہوری عمل کو بہتر بنانے اور ووٹر ٹرن آؤٹ بلند کرنے کی غرض سے دیے جانے والے 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بھی روک لیے گئے ہیں۔ اس امداد کی بندش پر بھارت نے بہت واویلا مچایا ہے۔ بھارتی میڈیا تواتر سے ایسی رپورٹس پیش کر رہے ہیں جن میں امریکا کو سطر در سطر مطعون کیا گیا ہے۔
اب کہا جارہا ہے کہ امریکا کی “ڈیپ اسٹیٹ” بھارتی جمہوریت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ جارج سوروز اور یو ایس ایڈ پر بھی الزام تراشی کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ امریکا دوسرے بہت سے ملکوں کی طرف بھارت میں بھی جمہوری عمل کو کنٹرول کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے امریکی حکومت پر بھارت کی سیاست میں مداخلت کا الزام عائد کیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا تھوڑی سی امداد دے کر اپنی مرضی کے انتخابی نتائج یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
نئی سیاسی بحث کے قلب میں امریکا کا کنسورشیم فار الیکشنز اینڈ پولیٹیکل پروسیس اسٹرینتھننگ ہے جس میں دی نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ، دی انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹیٹیوٹ اور انٹرنیشنل فاؤنڈین فار الیکٹورل سسٹم شامل ہیں۔ یہ ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ یو ایس ایڈ دنیا بھر میں جمہوری اداروں اور جمہوری عمل میں معاونت کرنے والا سب سے بڑا امریکی ادارہ ہے۔ یو ایس ایڈ نے 2001 سے اب تک بھارت میں متحرک رہتے ہوئے اُسے جمہوری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی مد میں 2 ارب 86 کروڑ ڈالر کی امداد دی ہے۔ گزشتہ چار برس میں 65 کروڑ ڈالر دیے گئے ہیں۔