عام آدمی پارٹی کا زوال۔ٹوٹ گئے خواب

246

(2)
باتھ رومز میں سونے کی قلعی کیے ہوئے نل، جیکوزی وغیرہ لگائے گئے۔ ان اقدامات نے سادگی کے متعلق ان کے مؤقف کی نفی کی، جس سے پارٹی کے اندر اور باہر کئی لوگ حیران رہ گئے۔بس میں دھکے کھانے والا اور نائلون کی ہوائی چپل پہننے والا کیجری وال پوری طرح روایتی سیاستدانوں کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔ دہلی شہر کو کور کرنے والے صحافیوں کے لیے ایک بڑا شاک یہ تھا کہ اس سے قبل کانگریسی وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشت تک ان کی رسائی نہایت ہی آسان ہوتی تھی۔ وہ اکثر خود ہی فون پر آتی تھیں، تقریباً روز ہی انہیںسیکرٹریٹ میں ملتی تھی۔ مگر کیجریوال تک رسائی نہایت ہی مشکل ہو گئی تھی۔ فون پر آناتو دور کی بات، سیکرٹریٹ میں صحافیوں کی آمد پر پابندی لگا دی گئی۔ مڈل کلاس کے لیے عآپ کی کامیابی دراصل سیاسی، سماجی اور اقتصادی بیداری کی ایک علامت تھی۔ آزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخابی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امراء کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا وہ ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا آرہا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کی طرز پر اپنے اخراجات کے لیے عوام سے عطیات جمع کیے۔مگر سیاست کے ہوشربااخراجات کی وجہ سے یہ طریقہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکا۔ بھارتی سیاست کی تاریخ میں چند ہی تحریکیں ایسی ہیں جنہوں نے عوام کے تخیل کو اپنی گرفت میں لیا ہو، اور عآپ ان میں نمایاں رہی ہے۔ اس کا عروج برق رفتاری سے ہوا۔مگر تکبر، اندرونی اختلافات اوربنیادی اصولوں سے انحراف کی وجہ سے اس کا زوال بھی اتنا ہی ڈرامائی ثابت ہوا۔ عام آدمی پارٹی کی جڑیں اْس زبردست اینٹی کرپشن تحریک میں پیوست تھیں جسے انڈیا اگینسٹ کرپشن (IAC) نے منظم کیا تھا۔ 2008 سے 2014 کے درمیان کانگریس کی قیادت میں چلنے والے متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے 2) حکومت کے دور میں کئی بڑے کرپشن کیسز منظر عام پر آئے، جس سے عوامی غصہ انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر سرگرم کارکنوں نے تحریک میں شمولیت اختیار کی، سماجی کارکن انا ہزارے اس تحریک کے مرکزی چہرے کے طور پر ابھرے۔ جنتر منتر پر ہزارے کی بھوک ہڑتال نے ملک گیر حمایت حاصل کی، جس میں اروند کیجریوال، پرشانت بھوشن اور کرن بیدی جیسے نمایاں کارکن بھی شامل تھے۔ اس دور میںلال کشن ایڈوانی کی قیادت میں اپوزیشن بی جے پی پے درپے انتخابات میں شکست سے دوچار ہو رہی تھی۔ اسلیے راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ یعنی ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس نے اس تحریک کی اعانت کی۔ ان کا خیا ل تھا کہ اس تحریک سے کسی طرح سے کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرکے کمزور کیا جائے۔باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔ چونکہ اس تحریک میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤںکا غلبہ تھا، اس لیے بھی آر ایس ایس کے لیے یہی ایک قابل قبول متبادل تھا۔ جب انا ہزارے نے 2011 میں بھوک ہڑتال کی، تو پس منظر میںبھارت ماتا کی وہی تصویر لگی تھی، جو آر ایس ایس کے دفاتر میں لٹکی ہوتی ہے۔ میانک گاندھی کے مطابق ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر نے غیر رسمی طور پر اس تحریک کی حمایت کی منظوری دی تھی۔چنانچہ نومبر 2012 کوعام آدمی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔مگر ستمبر 2013 کو جب بی جے پی نے

گوا میں منعقد مجلس عاملہ کی میٹنگ میں ایڈوانی کے بدلے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانے کا اعلان کردیا، تو آر ایس ایس نے یکسوئی سے مودی کو جتانے کے لیے کمر کس لی اور انڈیا اگینسٹ کرپشن کی کوکھ سے جنمی عآپ سے قومی سطح پر کنارہ کشی اختیار کردی۔ دہلی میں شاندار جیت کے بعد عآپ نے 2014 میں قومی سطح پر پھیلنے کا فیصلہ کیا، حتیٰ کہ کیجریوال نے خود نریندر مودی کے خلاف وارانسی سے الیکشن لڑا۔ مگر نتیجہ تباہ کن ثابت ہوا۔ عام آدمی پارٹی صرف پنجاب میں چار سیٹیں جیت سکی۔ قومی سطح پر مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے بغیر اتنے بڑے انتخابی دائرے میں کود پڑنے سے اس کی کمزوریاں عیاں ہوگئی۔ ہندو قوم پرستوں نے جب ان سے کنارہ کشی اختیار کی تو مسلم طبقہ نے ان کا ہاتھ تھاما۔ مگر ان کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی مایوس کن رہا۔ فی الوقت بھی جن 22 سیٹوں پر عآپ نے کامیابی حاصل کی ان میں سے 8 سیٹیں مسلمانوں کے ہی دم سے جیت گئے۔ انہوں نے دہلی اقلیتی کمیشن کی زمام معروف مصنف اور صحافی ظفر الاسلام خان کے سپرد تو کی، مگر ان کی رپورٹوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں زندہ بچ جانے والوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت، شمال مشرقی دہلی میں مسلم خواتین کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حیثیت، اور مسلم قبرستانوں اور عیسائی قبرستانوں کے مسائل اور حیثیت کے بارے میں ان رپورٹوں کو اسمبلی میں رکھا گیا نہ کسی سفارش پر عمل کیا گیا۔ اردو اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے بار بار کی گئی درخواستوں پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ فروری 2020 میں شاہین باغ شہریت

قانون کے خلاف ایجی ٹیشن اور اس کے بعد برپا ہوئے دہلی فسادات کے علاوہ یونیفارم سول کوڈ پر خاموشی نے اس دلیل کو تقویت بخشی کہ عآپ بی جے پی سے دو ہاتھ کرنے کے بجائے اس کی راہ پرنکل چکی ہے۔ دہلی فسادات کے دوران جب پولیس نے ان کے ایک کونسلر طاہر حسین کو ملزم بنا کر گرفتار کیا تو اس کی حمایت کرنے کے بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔ کوویڈ کے دوران ہندو قوم پرستوں نے تبلیغی جماعت اور بستی نظام الدین میں اس کے ہیڈ کوارٹر اور مسجد کو نشانہ بنایا تو کیجری وال نے اس کی جانچ کرنے کے بجائے مفسدوں کا ساتھ دیا۔ جموں و کشمیر کے سلسلے میں تو اس پارٹی کا رویہ ہی ہتک آمیز رہا۔ اگست 2019 کو اس پارٹی نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے، ریاست کو دو لخت کرکے مرکزی انتظام والا علاقہ بنانے اور ضم کرنے پر وزیراعظم نریندر مودی حکومت کی حمایت کی۔ ایوان بالا میں بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں تھی۔ عآپ اور چند دیگرعلاقائی پارٹیاں اگر اس کی مخالفت کرتیں تو اس کا پاس ہونا ناممکن تھا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود اروند کیجری وال دہلی اسمبلی اور اپنی حکومت کی بے اختیاری کا رونا رو کر مزید اختیارات کا مطالبہ کرتے تھے، مگر جموں و کشمیر کو بے اختیار کرنا اور اس کو دو لخت کرنا ا ن کو منظور تھا۔ اس دوہرے معیار نے ان کی قلعی مزید کھول دی۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی کا ماڈل جموں کشمیر کے اس وقت کے رکن اسمبلی، فی الوقت محبوس رکن پارلیمنٹ، انجینئر رشید کی اپنے حلقہ لنگیٹ میں کارکردگی کی بنیاد پر تیار کیا تھا۔ 2010 اور پھر 2016 میں کشمیر میں انتفاضہ برپا تھا، لنگیٹ ایک پر امن جزیرہ کی مانند تھا، جہاں رشید کی ہی قیادت میں لوگوں نے یکجہتی کے لیے جلسے جلوس تو نکالے، مگر یہ علاقہ پر امن رہا۔ (جاری ہے)