قیدی 804 کے 800 اور عافیہ کے 8000 دن

281

ابھی قیدی نمبر 804 کے 800 دن بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک چیخ کی آواز آئی کہا گیا کہ بانی صاحب نے بڑے حافظ صاحب کو خط لکھ دیا ہے ان کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے اور تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تبدیلی کا تو انہیں شروع ہی سے شوق ہے، کیا کیا تبدیل نہیں کیا۔ اس پر زیادہ بات کی ضرورت نہیں، سیاست سے لے کر گھریلو معاملات تک بار بار تبدیلیاں کی ہیں، آخری گھریلو تبدیلی راس بھی آئی اور مشکل میں بھی اس کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔ ابھی موصوف کے پہلے خط کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ نیا خط میڈیا میں آ گیا، اس خط میں پالیسی بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے حالات بدلنے کا شکوہ کیا گیا ہے۔ پہلا خط ملنے کی تو تصدیق نہیں ہوئی تھی لیکن دوسرے خط کی تصدیق عدالت عظمیٰ سے ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا کہ اس خط میں سنجیدہ نوعیت کے نکات ہیں اس لیے اس کی سماعت آئینی بنچ ہی کرے گا، اور نکات کیا ہیں انہیں دیکھ اور پڑھ کر سنجیدگی کی سطح کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

موصوف کے پہلے خط میں تو پالیسیاں بدلنے کی بات کی گئی تھی لیکن دوسرے خط نے اصل مدعا بیان کردیا، انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ مجھے موت کی چکی میں رکھا گیا ہے، بجلی تک بند ہے، عدالتی حکم کے باوجود میری اہلیہ سے ملاقات نہیں کرائی جاتی، اہلیہ کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، مجھے 20 دن تک مکمل تنہائی میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی بھی نہیں آتی، میرا ورزش کرنے والا سامان اور ٹی وی بھی لے لیا گیا ہے، اخبارات تک نہیں دیے جارہے، کتابیں بھی روک لیتے ہیں، میرے بیٹوں سے بھی چھے ماہ میں صرف تین مرتبہ بات کروائی گئی ہے، چھے ماہ میں گنتی کے چند افراد کو ملنے دیا گیا ہے۔ ان شکایات کے علاوہ انہوں نے عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ کی توہین اور پیکا ایکٹ اور میڈیا پر قدغن کی شکایات بھی کی ہیں لیکن زیادہ زور اپنی پریشانیوں پر ہے اور ان کے حامی ان ہی شکایات پر مر مٹے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی کی یہ شکایات پڑھتے وقت بے ساختہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا اغوا، جرم بے گناہی پر جعلی عدالت میں جھوٹا مقدمہ، مسلسل ذہنی، جسمانی اذیت، قید تنہائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہاں ویسی ہی کال کوٹھری جس کا شکوہ کپتان نے کیا ہے، اور وہی شکایت کہ ماں سے فون پر بات نہیں کرنے دی گئی، بہن اور بھائی کو ملنے نہیں دیا گیا۔ بچوں سے بات نہیں کروائی جاتی، اور عافیہ نے عمران خان کے دور حکومت میں 800 سے زیادہ دن، اس سے کہیں زیادہ شدید ظلم کے عالم میں گزارے ہیں، خان صاحب اگر اس وقت قوم کی بیٹی کی طرف توجہ دے دیتے تو آج شاید ان کے شکوے میں وزن ہوتا۔ لیکن انہوں نے جن چیزوں کے چھن جانے کا ذکر کیا ہے ان میں سے بہت سی چیزوں کا تو عافیہ تصور بھی نہیں کرسکتی، بکرے کا گوشت اور یخنی، ڈرائی فروٹ، پھل، اور ہاں ایکسرسائز مشین، سیاسی بیانات، اخبارات اور کتابیں، فون پر اپنے پیاروں سے باتیں، یہ تو عافیہ کے خواب ہی ہوسکتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے خط نے عافیہ کے مصائب کی طرف حساس دلوں کی توجہ مبذول کرادی ہے، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ خان صاحب کو بہت اچھا موقع ملا تھا وہ اس وقت ایک خط لکھ دیتے تو آج آرمی چیف کو خطوط نہ لکھنے پڑتے، اس صورتحال پر بہادر شاہ ظفر کا واقعہ یاد آگیا، انہیں جب کالے پانی لے جایا جارہا تھا تو صبح سویرے اٹھ کر بحری جہاز کے عرشے پر آکھڑے ہوئے، اور سورج نکلنے کا منظر دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ بڑے عرصے بعد یہ دن دیکھنے کو ملا، روایات کے مطابق ان کے ساتھ جانے والے مصاحب میں سے ایک نے کہا کہ حضور اپنے دور اقتدار میں اگر روز یہ دن دیکھ رہے ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ تو بانی پی ٹی آئی اپنے دور میں اگر قید تنہائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ذہنی وجسمانی اذیت اور قید ناحق کا شکار عافیہ کے لیے ایک خط لکھ دیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔

وہ اپنی قید کے دوران بیٹوں سے ملاقات، دوستوں اور سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں نہ ہونے کا حساب کررہے ہیں لیکن اپنے دور میں عافیہ کی اس اذیت کا احساس نہ کرسکے۔ وہ شاید تصور نہیں کرسکتے کہ ایک ماں کو اس کے بچوں سے دور رکھنا کس قدر اذیت ناک عمل ہے اور اگر اس کے بچوں کو دور رکھا جائے تو بھی انسانی حقوق کا معاملہ ہوتا ہے۔ عافیہ کو ماں اور بچوں دونوں سے دور رکھا گیا، خان صاحب کو اگر پھر موقع ملے تو وہ اپنے عوام کے حقوق اور ان کی تکلیفوں کو دور کرنے پر توجہ دیں تو شاید دوبارہ ایسی صورتحال درپیش نہ ہو، اگر خان صاحب اپنے مسائل میں الجھ کر عافیہ کے معاملات سے بے خبر رہے تو ان کی اور دیگر بے خبروں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ تلک الایام نداولھا بین الناس۔

صرف بانی پی ٹی آئی نہیں میاں نواز شریف، وزیر اعظم شہباز، اسحق ڈار، مریم نواز، آصف زرداری، اور اس قبیل کے سارے لوگ اپنی تکلیف کے وقت ڈاکٹر عافیہ کو بھی یاد کرلیا کریں۔ اور ان لوگوں کو تو باریاں ملتی ہیں اپنی باری کے وقت ڈاکٹر عافیہ کو یاد کرلیا کریں۔ اور ان حکمرانوں کے مصائب کا تو براہ راست تعلق ان کی حرکتوں سے ہے، ڈاکٹر عافیہ تو بے قصور ہے اسے جرم بے گناہی پر 86 سال سزا سنائی گئی، اسی حال میں اس کے 8000 دن 23 فروری کو مکمل ہوجائیں گے۔ پاکستانی سیاستدان، اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور قوت کے تمام مراکز ان 8000 دنوں کو 86 سال میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ سب کو اپنے وقار، عزت، حکومت، اقتدار اور دولت کی فکر ہوتی ہے، لیکن قومی غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اور یہ کوئی چیز نہیں بلکہ اصل اور بڑی چیز ہوتی ہے۔ اس کے سامنے اقتدار، مال ودولت کچھ نہیں، یہ سب ایک مرتبہ قومی غیرت کا مطلب سمجھ لیں بیٹی کیا ہوتی ہے اس کا مطلب سمجھ لیں ورنہ اگر سمجھ سکیں تو یہی کافی ہے۔

جان اپنی ہے اور آبرو نسلوں کی کمائی
سر کون بچاتا پھرے دستار کے آگے