امریکا میں آباد ہوکر کام کرنا ہے تو موزوں ترین ویزا کیٹیگری منتخب کیجیے

96

امریکا میں قیام اور کام کے لیے جو چند ویزا کیٹیگریز بے حد مقبول ہیں اُن میں نمایاں ترین ایچ ون بی ہے۔ یہ ویزا کیٹیگری دنیا بھر کے پروفیشنلز کے لیے ہے۔ یہ لوگ امریکا آنے اور کام کرکے آباد ہونے کے لیے ایچ ون بی ویزا حاصل کرتے ہیں جس کی چند شرائط ہیں اور اِن شرائط کی تکمیل بھی بہت زیادہ دشوار نہیں۔

اب تک ایچ ون بی بہت مقبول ویزا کیٹیگری رہی ہے مگر اب، ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ آںے پر، اسکروٹنی سخت ہوچکی ہے۔ امریکا میں قدم رکھنے ک لیے ویزا کی چند دوسری کیٹیگریز بھی ہیں جو کم

معروف ہیں اور لوگ اُن کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ ایچ ٹو اے، ایچ ٹو بی، ایچ تھری، ایل، پی اور کیو بھی ایسی کیٹیگریز ہیں جن میں امریکا ویزا جاری کرتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے باشندے یعنی پروفیشنلز بالعموم ایچ ون بی کیٹیگری کے ویزا کے ذریعے امریکا میں قدم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکی حکام نے ایچ ون بی کیٹیگری کے ویزا کا اجارہ سخت تر معیارات سے نتھی کردیا ہے۔

ایک اور بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ نے میک امریکا گریٹ اگرین کے نعرے کے ساتھ تارکینِ وطن کے لیے قدرے عدمِ قبولیت کی فضا پیدا کردی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا میں کام کرنے کا بھرپور موقع سب سے پہلے خود امریکیوں کو دیا جائے۔ اگر مقامی افرادی قوت میسر نہ ہو تو بیرونِ ملک سے پروفیشنلز کو لایا جائے یا آنے دیا جائے۔

دیگر ویزا کیٹیگریز کو سمجھنا بھی لازم ہے تاکہ امریکا میں کام کرنے کے خواہش مند افراد وہاں جانے کے قابل ہوسکیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لوگ امریکا میں آباد ہونے کے حوالے سے اتاؤلے تو بہت ہوتے ہیں مگر وہاں جانے کے معقول قانونی طریقوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ امریکا میں چونکہ قوانین کی پاسداری پر بہت زور دیا جاتا ہے اس لیے وہاں جانے سے پہلے وہاں کے قوانین کو سمجھنا چاہیے۔
حکومتِ پاکستان اور نئی نسل دونوں کو سمجھنا چاہیے کہ بھارت نے امریکا کی کاروباری دنیا کی ضرورت کے مطابق پروفیشنلز تیار کرکے اب تک ایچ ون بی ویزا کا بڑا شیئر حاصل کیا ہے۔ پاکستان کے باصلاحیت نوجوانوں کو بھی وہ تمام مہارتیں حاصل کرنے پر توجہ دینی چاہیے جن کی امریکا میں غیر معمولی طلب ہے۔ بھارت کے نوجوان چونکہ پوری طرح تیار ہوکر ویزا کے لیے درخواستیں جمع کراتے ہیں اس لیے انہیں آسانی سے ویزا مل بھی جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ بھارت کے حوالے سے امریکا میں یہ تاثر عام ہے کہ اُس کے باشندے دل جمعی سے کام کرتے ہیں، مشکلات کھڑی نہیں کرتے اور زیادہ کام کرنے پر بھی بیزاری محسوس نہیں کرتے۔ خلیجی ممالک میں بھارت کی افرادی قوت کی زیادہ کھپت کا یہی راز ہے۔