ایک فوجی آمر نے چند ڈالروں کے عوض قوم کی بے گناہ اور بے قصور بیٹی کو امریکا کے حوالے کردیا لیکن اس کے بعد جو سول حکمران آئے وہ کہیں زیادہ بے غیرت اور بے حمیت ثابت ہوئے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کو اُلجھاتے چلے گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو یہ کیس ابھی تازہ تازہ تھا۔ چنانچہ پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی اور امریکی عدالت میں یہ کیس لڑنے کا مطالبہ کیا جہاں سے عافیہ کو ایک انتہائی مضحکہ خیز مقدمے میں 80 سال قید سخت کی سزا ہوچکی تھی اور وہ جیل میں یہ سزا بھگت رہی تھیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اور سید یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے۔ انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کے مطالبہ پر عافیہ کیس لڑنے کے لیے کروڑوں ڈالر فنڈ کی منظوری دے دی۔ یہ فنڈ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے حوالے کردیا گیا جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ہے تو پاکستان کا سفیر لیکن امریکا میں بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کے بجائے امریکا کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے۔ عافیہ کے کیس میں بھی اس نے یہی کیا۔ اس نے عافیہ کی وکالت کے لیے جو امریکی وکیل ہائر کیا وہ مقدمے کی کارروائی کے دوران عافیہ کو بے قصور ثابت کرنے کے بجائے انہیں مجرم ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مقدمے کی سماعت کے موقع پر ملزمہ کی حیثیت سے عدالت میں موجود ہوتی تھیں انہوں نے وکیل صفائی کے دلائل سنے تو سر پیٹ لیا اور پاکستانی سفیر سے کہا کہ وہ اپنا وکیل واپس لے لیں۔ حسین حقانی بھی یہی چاہتے تھے انہوں نے معاملہ ختم کردیا۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھڑانے کے معاملے میں بھی انہوں نے رکاوٹ ڈالی اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس طرف آنے ہی نہیں دیا۔ یہ واقعہ بہت پرانا ہے اس لیے قارئین کے ذہن میں اس کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہوگی، ہم یہاں مختصراً بیان کرتے ہیں۔ ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے اس شبہ میں کہ دو موٹر سائیکل سوار لاہور میں اس کی گاڑی کا تعاقب کررہے تھے پستول کے فائر کرکے انہیں قتل کردیا۔ واردات کے بعد اس نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن سڑک پر ایک ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا جس نے اس کے فرار کی کوشش ناکام بنادی اور اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا۔ امریکی سفارت خانے کو جونہی اس واقعے کا علم ہوا اس نے جاسوس کو چھڑانے کے لیے سفارتی سرگرمیاں شروع کردیں۔ امریکی سفیر نے دعویٰ کیا کہ ریمنڈ ڈیوس ہمارا سفارت کار ہے اور جنیوا کنونشن کے تحت سفارت کاروں کو سفارتی استثنا حاصل ہے اس لیے ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔ اسے ہمارے حوالے کیا جائے۔ چونکہ یہ دعویٰ جھوٹا تھا اور اس کا نام سفارت کاروں کی فہرست میں شامل نہ تھا اس لیے شاہ محمود قریشی نے جو اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان پر بہت دبائو ڈالا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے براہ راست انہیں فون کیا۔ آصف زرداری اس وقت صدر
تھے، انہوں نے صدارتی دبائو ڈالا۔ امریکا کے حامی بیوروکریٹس اور فوجی افسروں نے بھی ان سے رابطہ کیا لیکن شاہ محمود قریشی اپنے موقف پر ڈٹے رہے، انہوں نے استعفا دینا قبول کرلیا لیکن امریکی جاسوس کو سفارت کار قرار دینے کی کوشش ناکام بنادی اور قتل کا کیس عدالت میں چلا گیا۔ وکیل استغاثہ بیرسٹر اسد منظور بٹ نے کیس بڑی محنت سے لڑا اگر عدالتی فیصلے پر انحصار کیا جاتا تو امریکی جاسوس کو سزائے موت یقینی تھی لیکن امریکی عدالتی کارروائی سے ہٹ کر ملزم کو چھڑانے کی کوشش میں تھے ایسے میں بعض سیاستدانوں اور رائے عامہ کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے ملزم چھوڑ دیا جائے مقتولین کے ورثا بھی اس پر راضی تھے۔ حسین حقانی کے علم میں جب یہ تجویز آئی تو وہ اس کے خلاف حرکت میں آگئے۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں ورثا کو دیت دینے کی تجویز پیش کردی اور آصف زرداری کو اس پر قائل کرلیا۔ چنانچہ عافیہ صدیقی کو رہا کرانے کی تجویز ڈراپ کردی گئی حالانکہ امریکی اس پوزیشن میں تھے کہ وہ باآسانی اس تجویز کو مان سکتے تھے۔ رہا دیت کا معاملہ تو عافیہ صدیقی کی رہائی کے بعد حکومت خاموشی سے مقتولین کے ورثا کو دیت بھی ادا کرسکتی تھی۔ لیکن حسین حقانی نے زرداری کو عافیہ صدیقی کی رہائی کی طرف آنے ہی نہیں دیا۔ عدالتی کارروائی کا رخ بھی موڑ دیا گیا اور دیت کی ادائیگی پر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا گیا۔ حسین حقانی امریکی وزیر خارجہ کے ہمراہ پاکستان آئے اور امریکی جاسوس کو چھڑا کر لے گئے۔ بعد میں ریمنڈ ڈیوس نے ایک کتاب لکھی
جس میں اپنی رہائی میں حسین حقانی کے مرکزی کردار کی تعریف کی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی عدم رہائی میں نواز شریف کا کردار بھی مجرمانہ رہا۔ انہوں نے بطور وزیراعظم دو امریکی صدور بل کلنٹن اور اوباما کا زمانہ دیکھا۔ وہ صدر اوباما سے ملاقات کے لیے گئے تو جیب سے پرچیاں نکال کر پاکستان کے مسائل پر بات کرتے رہے لیکن کسی پرچی پر عافیہ صدیقی کا نام نہ تھا، ان سے صدر اوباما کے نام خط لکھنے کی درخواست کی گئی لیکن وہ اس پر بھی آمادہ نہ ہوئے۔ میاں نواز شریف کے بعد 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بنے تو عافیہ صدیقی کے معاملے میں ان کا رویہ بھی بے حسی پر مبنی تھا، حالانکہ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ انہوں نے سب سے پہلے پاکستانی اور عالمی پریس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا اور افغان جیل میں ان پر تشدد کا معاملہ اُٹھایا تھا اور اس سلسلے میں برطانوی خاتون صحافی کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن جب وزیراعظم بنے تو عافیہ صدیقی کو بھول گئے۔ انہوں نے دو مرتبہ صدر ٹرمپ سے ملاقات کی، نہایت بے تکلفانہ ماحول میں بات چیت ہوئی لیکن خان صاحب کو اس بات چیت میں قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی یاد نہیں آئی۔ اب شہباز شریف وزارت عظمیٰ کی دوسری ٹرم پوری کررہے ہیں ان کے دور میں یہ تو ہوا کہ انہوں نے امریکی صدر کو خط لکھنے کی جرأت کی لیکن اس خط کا سرگرمی سے تعاقب نہیں کیا گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی سبک دوشی کے موقع پر سیکڑوں مجرموں کو معافی دی لیکن عافیہ کی درخواست مسترد کردی۔ امریکی بھی جانتے ہیں کہ پاکستانی حکمران قومی حمیت سے خالی ہیں، وہ اس قسم کے کچوکے برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔