بے مثل شیدائی پروفیسر نو روز جان

179

پروفیسر نوروز جان ایک صاحب فن شخصیت تھے۔ ایک بے مثل شیدائی تھے۔ پوری زندگی اسلام، پاکستان، ادب اور جماعت اسلامی سے محبت میں گزار دی۔ آپ کا تعلق جنوبی پختون خوا کے ضلع کرک سے تھا۔ 2020ء میں آپ کے والد کی وفات ہوئی تو اس حوالے سے انہوں نے لکھا: ’’گزشتہ برس میرے والد گرامی حاجی حبیب اللہ کا انتقال ایک سو سات (107) برس میں ہوا۔ وہ 1930ء میں یتیم ہوگئے تھے۔ میرے دادا 1930ء اور دادی 1931ء میں فوت ہوئے۔ میری پیدائش 1947ء کی ہے۔ میرے والدین اَن پڑھ تھے۔ بھٹہ خشت مزدور تھے۔ میں نے خود 1966ء تک بھٹہ خشت مزدوری کی اور اسی سال میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایم اے اردو پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پاس کیا‘‘۔

جب بستر مرگ پر تھے تو لکھا:۔ 30 مئی 2021ء کی شام ایک اینٹ سامنے کے گھر سے سرک کر آئی۔ تیسری چھت سے۔ میرا سر اور گھٹنا بچ گئے الحمدللہ۔ لیکن پائوں کی چار انگلیاں جسم سے کٹنے کے قریب۔ رات بارہ تک کارروائی مکمل ہوئی۔ ایک ماہ کے لیے چار پائی پر۔ تفہیم سنتا ہوں۔ بیمار ضرور ہوں مگر پریشان نہیں۔ میں تو روحانی طور پر سراپا دعا ہوں‘‘۔

پروفیسر نو روز جان اللہ کی حمد کرتے ہوئے 20 اکتوبر 2021ء کو دن ساڑھے 12 بجے خالق حقیقی سے جاملے۔ کرک میں ہی مدفون کیے گئے۔ ظہر میں نماز جنازہ ادا کی۔ ان کی وصیت کے مطابق امیر صوبہ (جماعت اسلامی) مشتاق خان نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اہل خانہ کے نام تعزیتی خط میں انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

پروفیسر نوروز جان علامہ اقبال، ابوالکلام آزاد اور ابوالاعلیٰ مودودی سے قلبی لگائو رکھتے تھے۔ 1966ء میں ابوالاعلیٰ مودودی سے ملے اور اس ملاقات کا اثر ان پر وفات تک رہا۔ خط و کتابت کا سلسلہ بھی رہا۔ پروفیسر موصوف نے کئی کتابیں تصنیف و تالیف کیں جن میں ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار کی ترجمانی ملتی ہے۔ آپ نے ان کی تمام نثری تقاریر اور خطوط کو کتابی شکل بھی دی۔ چند کتب کے نام مندرجہ ذیل ہیں:۔ ابوالاعلیٰ مودودی کے بین الاقوامی اسفار، مکاتب سید مودودی، سید مودودی سرحد میں، مکتوباتِ اکابرین جماعت اسلامی، اسلام اور عصر حاضر کا چیلنج وغیرہ۔

آپ نے معین الدین خٹک کی علمی و تحریکی خدمات پر چار کتابیں تالیف کیں۔ ملک غلام علی، نصر اللہ خان عزیز، چودھری غلام جیلانی اور نعیم صدیقی کے حالاتِ زندگی اور خدمات پر الگ الگ تذکرے مرتب کیے۔

پروفیسر نو روز جان ایک کثیر المطالعہ شخص تھے۔ کتب بینی کا شوق و جذبہ عشق کی حد تک تھا۔ یوں بہت سی نادر و نایاب کتابیں جمع کرلی تھیں۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے اہل خانہ نے یہ کتابیں منصورہ لاہور کو عطیہ کردیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ آپ کی وفات پر ایک آدھ چھوٹی موٹی خبر دے کر حق تعلق ادا کردیا گیا۔ کسی نے ان کے شایان شان مضمون، کالم، لکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ تین سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا۔ ہم تو زندوں کو بھلا دیتے ہیں اور مردہ پرستی میں طاق ہیں مگر اب یہ بھی سلسلہ اختتام کو پہنچا۔ چلیے انسانیت کے ساتھ بدعت کا بھی خاتمہ ہوا۔