ڈیجیٹل سفارت کاری کی اہمیت اور جاپانی مہارت سے استفادہ

304

آج کا دور نئے رجحانات کا دور ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے ہم جیسے “Baby boomers” (ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے والوں) کے لیے جو باتیں کل تک طلسم کدہ تھیں آج “Gen Zs” (90 اور اس کے بعد کی نسل) کے ہاتھوں ایک زندہ حقیقت بن چکی ہیں۔ جو کہ ’’آرہی ہے مسلسل صدائے کن فیکون‘‘ کے مصداق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اس انقلاب نے دنیا کے ہر شعبہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں جس سے عالمی سیاست اور سفارت کاری کا شعبہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ ماضی میں سفارت کاری ایک روایتی عمل سمجھا جاتا تھا جس کا تصور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں، تحریری معاہدوں اور بند کمروں میں ہونے والے طویل مذاکرات، سرکاری خطوط اور طویل مذاکرات تک محدود سمجھا جاتا تھا، بعد ازاں جیسے جیسے سفارت کاری کے نئے انداز متعارف ہوتے گئے، سفارتی سرگرمیاں بھی روایتی انداز سے آگے بڑھ کر نئے اسلوب کے ساتھ سامنے آئی جس میں سوشل میڈیا، متفرق ویب سائٹس، موبائل ایپس، اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز شامل ہیں جنہیں ڈیجیٹل سفارت کاری کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد وہ طریقے اور ذرائع لیے جاتے ہیں جن کے تحت دنیا بھر کے ممالک اپنے سفارتی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل سفارت کاری کو عوامی سطح پر مختلف بحرانوں میں فوری ردعمل ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرنے، اور معاشی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کسی بھی بین الاقوامی ہنگامی صورتحال یا بحرانی صورتحال میں متعلقہ ملک کے سفارتی ادارے فوری طور پر سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن ذرائع کے ذریعے فعال ہوکر اپنا موقف فوری طور پر واضح کرتے ہیں اور دنیا سے براہ راست رابطہ کر کے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ اس موثر طریقے کی ایک تازہ ترین مثال غزہ کی صورتحال اور اس پر آنے والا موثر بین الاقوامی رد عمل بھی تھا جس نے فلسطینیوں کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کیا۔ ڈیجیٹل سفارت کاری نے روایتی سفارت کاری کے خدو خال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور اب سفارتی سرگرمیوں میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں ہو چکا ہے، جہاں ممالک اپنی پالیسیوں، ثقافت اور مؤقف کو براہ راست دنیا کے سامنے پیش کرتے اور رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح، ڈیٹا اینالیٹکس اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے بھی سفارتی فیصلوں میں زیادہ سائنسی اور مؤثر طریقے سے کام کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر ورچوئل اجلاس اور آن لائن مذاکرات چند مثالیں ہیں جن کے ذریعے سفارتی سرگرمیوں کو مزید آسان اور موثر بنایا جارہا ہے۔ لیکن جس طرح ہر سہولت اپنے ساتھ کچھ چیلنجز لے کر آتی ہے، اسی طرح ڈیجیٹل سفارت کاری کو بھی ڈیٹا ہیک ہو جانے اور سائبر سیکورٹی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے لہٰذا بین الاقوامی سطح پر آن لائن سیکورٹی پالیسیوں کو بھی مضبوط بنا یا جارہا ہے تاکہ ہیکنگ اور آن لائن جاسوسی سے بچا جا سکے۔

آج سفارت کاری کا چلن تبدیلی کی جانب گامزن ہے، ترقی یافتہ ممالک ڈیجیٹل سفارت کاری کے ذریعے اپنی بین الاقوامی حیثیت کو مستحکم کرہے ہیں اور اس کے ذریعے سوشل میڈیا پر بین الاقوامی پالیسیوں پر براہ راست گفتگو کرتے ہیں۔ ان ممالک نے نہ صرف اپنی سفارتی حکمت عملی میں ڈیٹا اینالیٹکس، سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل ٹولز کو شامل کیا ہے، بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں ان ڈیجیٹل ذرائع کو استعمال کر کے اپنی ثقافتی اور تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ براعظم ایشیا نے بھی ان تبدیلیوں کے گہرے اثرات قبول کیے ہیں اور اب ان اثرات کے تحت ایشیا میں بہت تیزی سے معاشی، سیاسی، اور سماجی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ چین، جاپان اور آسیان (ASEAN) ممالک نے اس شعبے میں تیزی سے ترقی کی ہے، کیونکہ یہ ممالک اپنی معیشت، سیاست، اور علاقائی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر ڈیجیٹل حکمت عملیوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت بھی ڈیجیٹل سفارت کاری میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن دونوں ممالک کی پیش رفت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ بھارت نے ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ مہم کے تحت اپنی سفارتی سرگرمیوں میں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے اور عالمی سطح پر اپنی سوشل میڈیا مہمات کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ ہرچند کہ پاکستان نے بھی اس حوالے سے اپنی وزارت خارجہ کے تحت اسٹرٹیجک کمیونیکیشن ڈویژن قائم کیا ہے، لیکن آئی ٹی ایکسپرٹس کی جانب سے ابھی اس شعبے میں ایک جامع اور منظم ڈیجیٹل پالیسی کی کمی کو واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ البتہ پاکستان کی جانب سے ’’شیئر پاکستان پورٹل‘‘ کا قیام بہر حال ایک قابل تعریف عمل ہے جو ہمارے نوجوان انجینئرز کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، گویا

خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر

یہ پورٹل یقینا عوامی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے ایک مثبت قدم ہے۔ لیکن اب بھی پاکستان کو اپنا بین الاقوامی امیج بہتر بنانے اور ڈیجیٹل سفارت کاری کو موثر کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل سفارت کاری کے شعبے میں ایک بہترین مثال جاپان بھی ہے جس نے اپنی ڈیجیٹل سفارت کاری کو انتہائی مؤثر انداز میں ترتیب دیا ہے۔ جاپانی وزارت خارجہ (MOFA) کی سوشل میڈیا مہمات دنیا بھر میں مقبول ہیں اور ان کے لاکھوں فالورز موجود ہیں۔

جاپان نے ڈیٹا اینالیٹکس، مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کو اپنی سفارتی پالیسی میں شامل کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر سائبر سیکورٹی اور ڈیجیٹل سفارت کاری میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان، جاپان کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، خصوصاً ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر، سائبر سیکورٹی اور ڈیجیٹل سفارت کاری کی تربیت کے شعبوں میں۔ ماہرین کی رائے میں ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے لیے جاپانی سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور جاپان کے ساتھ مل کر پاکستان اپنی سائبر سیکورٹی کو بھی مضبوط بنا سکتا ہے، اس ضمن میں جاپانی ماہرین کے تعاون سے پاکستانی سفارت کاروں کو ڈیجیٹل سفارت کاری کی تربیت فراہم کی جا سکتی ہے۔ آئی ٹی ماہرین کی رائے میں پاکستان کو ڈیجیٹل سفارت کاری میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اور سب سے پہلے ڈیجیٹل سفارت کاری کے لیے مخصوص ڈویژن کا قیام ضروری ہے، تاکہ وزارت خارجہ میں ایک مؤثر ڈیجیٹل سفارت کاری یونٹ بنایا جا سکے۔ اس ضمن میں ماہرین کی جانب سے پیش کردہ سفارشات کے مطابق پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنی سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز کی بہتری پر توجہ دینی ہوگی، تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کا ایک مثبت تاثر قائم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سائبر سیکورٹی کو مضبوط بنانے کے لیے بین الاقوامی ماہرین سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مزید برآں ڈیجیٹل ڈپلومیسی میں جاپان کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو جاپان کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے، تاکہ پاکستان اپنی سفارتی سرگرمیوں کو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کے مطابق بہتر بنا سکے۔

ڈیجیٹل سفارت کاری آج کے دور میں بین الاقوامی تعلقات کا ایک لازمی عنصر بن چکی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین جاپان جیسے ممالک سے سیکھتے ہوئے اپنی سفارتی حکمت عملی کو ڈیجیٹل دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ جاپان کے ساتھ تعاون اور مؤثر ڈیجیٹل پالیسیوں کے ذریعے پاکستان عالمی سطح پر اپنی سفارتی پوزیشن کو مزید بہتر بنا سکتا ہے اور مستقبل میں ایک مضبوط ڈیجیٹل سفارت کاری کا حامل ملک بن سکتا ہے۔ لیکن اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک وژنری لیڈرشپ کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان میں پہلی بار آئی ٹی کے شعبے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جماعت اسلامی نے بنو قابل کے نام سے جو انیشی اٹیو لیا ہے وہ یقینا ایک وژنری لیڈرشپ کی نشان دہی کرتا ہے جس کے لیے حافظ نعیم الرحمن بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ اس شعبے میں جماعت اسلامی کے مثبت کردار کی تقلید کرتے ہوئے اسی نوعیت کے پروجیکٹس لانچ کریں جس سے ایک پروگریسیو پاکستان کا تصور دنیا کے سامنے آئے اور پاکستان کی امیج بلڈنگ کے لیے ایسے افراد کار تیار ہوسکیں جو مستقبل میں پاکستان کے لیے ڈیجیٹل سفارت کاری میں مثبت کردار ادا کرسکیں۔