کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا ہونے والے نوجوان مصطفی عامر کی مبینہ لاش حب سے ملنے کا واقعہ معاشرے کے بگاڑ کا ایک اور بھیانک مظہر ہے۔ یہ محض ایک قتل کا واقعہ نہیں بلکہ کئی سماجی نوعیت کے سوالات اٹھا رہا ہے، ہمارا سماج کس طرف جا رہا ہے؟ کیا اب دوستی بھی خطرناک ہو گئی ہے؟ پولیس تحقیقات کے مطابق، مصطفی اپنے دوست ارمغان کے گھر گیا، جہاں جھگڑے کے بعد اسے بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور اس کی لاش کو حب لے جا کر جلا دیا گیا۔ اس کیس میں قتل کی وجوہات میں مختلف باتیں سامنے آئی ہیں، جن میں منشیات کے پیسے پر لڑائی، نیو ائر کے دوران دونوں میں جھگڑا، اور کسی لڑکی کے معاملے کو جھگڑے کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق، ملزم شیراز نے دورانِ تفتیش بتایا کہ ملزم ارمغان نے مصطفی کو بہانے سے گھر بلوایا اور وہاں لوہے کی راڈ سے تشدد کا نشانہ بنایا۔ مصطفی کو نیم بے ہوش کرنے کے بعد اس کے منہ پر ٹیپ باندھ دی گئی۔ مقتول مصطفی کی گاڑی میں شیراز اور ارمغان کیماڑی سے ہمدرد چوکی کے راستے حب پہنچے۔ حب میں دھوراجی سے دو کلومیٹر دور ایک پہاڑی کے قریب گاڑی روکی گئی۔ گاڑی کی ڈگی کھولی گئی تو مصطفی زندہ تھا، جس کے بعد ارمغان نے پٹرول چھڑک کر لائٹر سے آگ لگا دی۔ پولیس کے مطابق، مصطفی اور ارمغان دوست تھے، جبکہ شیراز بھی ان کا قریبی ساتھی تھا۔ ارمغان کی عمر 31 سال جبکہ مقتول مصطفی 23 سال کا تھا۔ اس کیس میں ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں مصطفی اپنے دوست کو بتا رہا ہے کہ وہ ارمغان کے پاس جا رہا ہے اور کہہ رہا ہے، ’’میں بھی اب اپنے حساب سے کھیلوں گا، ایسا ہی ہے تو میں بھی ایک طریقے سے کھیلوں گا اس کے ساتھ‘‘۔ اس آڈیو پیغام نے پولیس کی تفتیش پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ واردات کسی مافیا یا پیشہ ور مجرموں نے نہیں بلکہ مصطفی کے اپنے ہی دوستوں نے انجام دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی بے حسی، سفاکی اور جرائم کی یہ سنگین شکل ہمارے نوجوانوں میں کیوں بڑھ رہی ہے؟ پاکستان میں نوجوانوں کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، میں ملک میں قتل اور پرتشدد واقعات میں 20 فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا، جس میں زیادہ تر کیسز میں نوجوان مجرم یا متاثرہ فریق تھے۔ کراچی میں ہر سال اوسطاً 300 سے 400 افراد کو قتل کیا جاتا ہے، جن میں زیادہ تعداد 18 سے 30 سال کے افراد کی ہوتی ہے۔ کبھی دوستی اخلاص اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی تھی، لیکن حالیہ واقعات نے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مصطفی جیسے کئی نوجوان جنہیں اپنے دوستوں پر بھروسا تھا، وہی دوست ان کے قاتل بن گئے۔ ایسے حادثات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرتی رویے کس قدر گر چکے ہیں۔ یہ بے رحمی اور تشدد کے بڑھنے کی کئی عوامل ہیں، ہمارے یہاں بچوں کو پیسہ کیسے کمانا ہے اس کی تربیت تو دی جارہی ہے لیکن اخلاقی تربیت کا فقدان ہے والدین اور تعلیمی ادارے نوجوانوں کو کردار سازی اور برداشت سکھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ آن لائن دنیا میں تشدد اور بے حسی کو معمول بنا دیا گیا ہے، جس سے نوجوانوں کی حساسیت ختم ہو رہی ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر میں نشے کی لت میں مبتلا نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو ان میں جرم کی طرف جھکاؤ پیدا کر رہی ہے۔ ہماری یہ نوجوان نسل قوم کی امید اور مستقبل ہے مگر افسوس کہ آج یہی نوجوان بے سمتی، مایوسی اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ سماجی عدم توازن، طبقاتی فرق، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، اور والدین کی عدم توجہی جیسے عوامل نے معاشرتی بگاڑ کو شدید کر دیا ہے۔ ہمارے یہاں دھوکا دہی، رشوت، اسمگلنگ، منشیات فروشی، اور قتل و غارت جیسے جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ مصطفی عامر کے اندوہناک قتل کی مثال اس معاشرتی بے حسی کی واضح علامت ہے، جہاں دوستوں کے درمیان معمولی جھگڑے کا نتیجہ بے دردی سے جان لینے پر منتج ہوتا ہے۔ اس کیس میں ملوث افراد کا پس منظر، ان کی سوچ، اور سفاکانہ طریقے سے قتل کر کے لاش کو جلانے کا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مادیت پسندی اور بے راہ روی نے نوجوانوں کو کس حد تک سنگدل بنا دیا ہے۔ یہ محض ایک پولیس کیس نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے جس پر ہر ذی شعور فرد، خاندان، عالم دین، استاد، والدین اور حکمرانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کی اخلاقی تربیت اور ذہنی نشوونما کی طرف توجہ نہ دی تو ہمیں مزید ایسے ہی واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سیاست سے ہٹ کر ان سنگین معاشرتی مسائل پر بھی توجہ دیں جو ہمارے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو یوں ہی بے سمت چھوڑ دیا اور ان کی اخلاقی بنیادوں کو مزید کمزور ہونے دیا، تو نہ صرف جرائم میں اضافہ ہوگا بلکہ کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا، سماج میں تھوڑا بہت بچا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی اجتماعی ذمے داریوں کو محسوس کریں، ورنہ وہ دن دور نہیں جب معاشرہ مکمل طور پر بدامنی اور بے حسی کا شکار ہو جائے گا۔