امریکا اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت سے چینی قیادت پریشان

224
the growing closeness between America and India

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے پر امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت نے دنیا بھر میں مختلف پیغامات دینا شروع کردیا ہے۔ چینی قیادت اس بدلی ہوئی صورتِ حال سے بہت پریشان دکھائی دے رہی ہے۔

بھارت کی معروف ویب سائٹ انڈیا ٹوڈے کے لیے ایک تجزیے میں انترا گھوشل سنگھ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے امریکی صدر سے ملاقات میں دیر نہیں لگائی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سفارتی معاملات میں تاخیر کی گنجائش برائے نام ہوتی ہے۔ انہوں نے واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران بہت سے معاملات پر جامع گفت و شنید کی ہے اور امریکا نے مختلف شعبوں میں تعاون کا دائرہ وسیع کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

کینیڈا، میکسیکو اور چین کی طرح امریکا نے بھارت پر بھی درآمدی ڈیوٹی عائد کردی ہے مگر اِس سے بھارت پر کچھ زیادہ دباؤ مرتب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بھارتی قیادت نے امریکی صدر سے مذاکرات میں تیزی دکھائی ہے تاکہ اشتراکِ عمل کے حوالے سے پایا جانے والا اٹکاؤ دور کیا جاسکے۔ یہ بات بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ امریکا سے بھارتی غیر قانونی تارکینِ وطن کی ملک بدری پر مودی سرکار نے کچھ خاص ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ بھارتی میڈیا میں بھی اس حوالے سے جذبات کو کنٹرول کرنے اور دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

صدر ٹرمپ نے موقع ملتے ہی چین پر دباؤ ڈالنے کا ہر حربہ آزمانا شروع کردیا ہے۔ بھارت سے تعلقات بڑھاکر بھی چین کو پریشان کیا جاسکتا ہے اور اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ یہی کر رہے ہیں۔ نریندر مودی جس انداز سے امریکا میں ٹرمپ اور اُن کی ٹیم کے ارکان سے ملے ہیں اُسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک مل کر چین کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انترا گھوشل سنگھ نے لکھا ہے کہ بھارت کے پاس بھی چین کو مختلف معاملات میں ڈھنگ کا جواب دینے کے لیے امریکا سے قربت کے سوا کوئی معقول آپشن نہیں۔ یورپی یونین سے بھارت کے تعلقات اچھے ضرور ہیں تاہم اُن کے ذریعے چین پر دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ یورپی یونین یوں بھی بڑی طاقتوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی میں الجھنے سے گریزاں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان پائے جانے والے تنازعات سے بھی یورپی یونین نے خود کو بہت دور رکھا ہے۔