اللہ مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین پر اپنی رحمتیں کرے۔ آمین۔ قاضی حسین احمد، محترم سید منور حسن اور قائد حریت سید علی گیلانی تین بزرگ ایسے گزرے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کا کسی کا خوف نہیں تھا۔ اپنی جہدو جہد کے بارے میں بالکل واضح تھے اور شفاف بیانیے کے ساتھ سیاسی جدوجہد کی۔ استعمار کے خلاف اور دنیا کے بتوں اور طاغوتی قوتوں کے لیے یہ تینوں شیر کی دھاڑ تھے، چیتے سے زیادہ حوصلہ رکھتے تھے۔ اتفاق بھی ایسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں بزرگوں سے سیکھنے کا موقع دیا ان میں دو بزرگوں کی محفلوں میں بیٹھنے کا بے شمار مرتبہ موقع ملا۔ سید منور حسن جب بھی اسلام آباد تشریف لاتے ان سے ملاقات ہوتی تو کندھے پر شفقت کے ساتھ ہاتھ رکھتے اور کہتے کچھ زیادہ ہی ’’موٹے‘‘ نہیں ہوگئے۔ میں کچھ لمحے خاموش رہتا، وہ مسکراتے رہتے، ایک بار ہمت کی اور کہا کہ ایک اکیلا دو گیارہ، قبلہ سید محترم مسکرائے یہ لمحہ اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات آج بھی یاد ہیں۔ قبلہ سید کی کل پھر یاد آئی۔ پورے پاکستان میں واحد ایک شخصیت تھے جنہوں نے مشرف کو صاف صاف الفاظ میں للکارا کہ کیا کر رہے ہو؟ اور کیوں کر رہے ہو؟ ان کی یاد اس لیے آئی کہ جناب میاں اسلم کی رہائش گاہ پر قبائل امن جرگہ ہوا، محترم جناب حافظ نعیم الرحمن بھی شریک ہوئے۔ جرگہ میں سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ نے تجویز دی کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین باجوڑ آئیں یا مالاکنڈ تشریف لائیں اور وہاں عمائدین سے ملاقات کریں اور عام لوگوں کے حالات معلوم کریں کہ وہ کس طرح انجانے خوف میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے یہ تجویز دی تو بہت سے لوگوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ ’’وہاں جائے گا کون اور واپس آنے کی ضمانت کون دے گا؟‘‘
حافظ نعیم الرحمن، جناب قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سید علی گیلانی کی جدوجہد کے بھی جانشین ہیں۔ حاضرین سے مخاطب ہوئے تو کہا کہ کوئی جائے نہ جائے میں وہاں جائوں گا اور براہ راست حالات معلوم کروں گا۔ زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ حافظ صاحب کی اس یقین دھانی نے سب کو حوصلہ دیا اور میں تو ماضی میں کھو گیا کہ جب سید منور حسن نے مشرف کو للکارا تھا۔ کشمیر میں سید علی گیلانی نے ان کے چار نکاتی فارمولے کے پرزے پرزے کر دیے تھے اصل میں ایسی ہی جرأت مند قیادت فیصلے لینے اور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملک بچانے کے لیے ایسے ہی لوگ اور ایسی ہی قیادت چاہیے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کن الفاظ میں حوصلہ دیا زرا سنیے۔ خیبر پختون خوا میں آئی ڈی پیز کے مزید تجربات کر کے آگ سے نہ کھیلا جائے، فوجی آپریشن سے امن قائم نہیں ہو گا، دہشت گردی کی وجوہات تلاش کر کے انہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو ہر صورت امن چاہیے، ہمیں نہیں دیا گیا تو کم از کم آنے والی نسلوں کو پرامن اور مستحکم پاکستان دینا ہو گا، یہ ملک ہمارا ہے ہمیں یہیں رہنا ہے، سب باہر نہیں جا سکتے، پاکستان افغانستان کو لڑانا امریکی ایجنڈا ہے، افغانستان سے بامعنی مذاکرات کیے جائیں، دونوں ملک ایک دوسرے کی خودمختاری، آزادی اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مذاکرات کریں، افغان سرزمین پاکستان میں بدامنی کے لیے کسی صورت استعمال نہیں ہونی چاہیے، افغان حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردی کو روکے۔ علاقائی سلامتی اور امن کے لیے چین، ایران، روس سے بھی بات کی جائے، امریکی مفادات کے لیے پراکسی کا کردار قوم کو قبول نہیں، حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ قیام امن کے لیے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے، ملک اور عوام کی خاطر بدترین سیاسی مخالف کے ساتھ بھی بیٹھنے کو تیار ہیں، ملک و قوم کا تحفظ ذاتی اور پارٹی مقاصد سے بالاتر ہے۔
پاکستان پوری امت اور دنیا بھر کے مظلوموں کی امیدوں کا مرکز تھا، بدقسمتی سے ملک پر مسلط حکمران طبقہ نے یہ امیدیں ختم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ آج ہم خود امن کی بھیک مانگ رہے ہیں، عوامی حمایت کے بغیر حکومتیں مسلط ہوں گی تو امن قائم ہو گا اور نہ قوم یکجا ہو سکتی ہے، پاکستان میں بدامنی اور دہشت گردی امریکی جنگ میں شمولیت کا نتیجہ ہے، پرویز مشرف کے دور میں سب کچھ امریکا کے حوالے کر دیا گیا، فیصلہ چند لوگوں نے کیا، نتائج 25 کروڑ عوام بھگت رہے ہیں۔
قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ قبائلی علاقوں میں فوج کی ضرورت نہیں، قبائلیوں نے کشمیر کے حصے کو آزاد کرایا، قبائلی علاقوں میں مثالی امن قائم تھا، دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ میں شمولیت کے اعلان سے لے کر آج تک وہاں امن قائم نہ ہو سکا، اسی جنگ میں جانے سے پاکستان اور افغانستان میں اعتماد کا بحران پیدا ہوا، خطے میں افراتفری پھیلی، فائدہ بھارتی ایجنسی را سمیت پاکستان اور اسلام مخالف قوتوں نے اٹھایا۔ جماعت اسلامی بار بار یہ کہہ چکی ہے کہ فوجی آپریشنوں سے امن قائم ہو گا اور نہ ہی یہ مسائل کا مستقل حل ہے، عوام کو سہولتیں دی جائیں، نوجوانوں کو روزگار ملے، جماعت اسلامی کی ماضی کی قیادت نے بھی فوجی آپریشنوں کی مخالفت کی، ان کے پیچھے چند نادان سیاست دانوں کو لگا دیا گیا، کہا گیا کہ جماعت اسلامی خدانخواستہ پاکستان مخالف ہے، واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کو کسی سے حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں، ہم نے ملک کی خاطر قربانیاں دیں، خون بہایا ہے، جماعت اسلامی امن کے لیے جتنا ممکن ہوا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، چاہتے ہیں حکومت اور ریاستی ادارے خیبر پختون خوا، بلوچستان سمیت پورے ملک میں امن کے قیام کے لیے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں، حکومت یہ قدم نہیں اٹھاتی تو جماعت اسلامی اپنے تئیں کوششیں جاری رکھے گی، ہم عوام کو بھی موبلائز کریں گے اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے‘‘ یہ الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ ایک جدوجہد کا نشان ہیں‘ اور عزم کی مکمل داستان ہیں قبائلی عوام امن کے لیے اب حافظ نعیم الرحمن کی راہ دیکھ رہے ہیں اور یہ ان کے لیے محمد بن قاسم بن کر وہاں جائیں گے۔