انسانی زندگی میں شعور کی اہمیت

295

فلسفے کو علوم کی ماں کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا اَدَق مضمون ہے جس سے سبھی بھاگتے ہیں اس کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک چھوٹا موٹا فلسفی ضرور ہوتا ہے جو گاہے گاہے یہ سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ

سبزہ و گْل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

فلسفے کی مشکل اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی انسان زندگی سے جڑے کچھ بنیادی سوالات کو نظر انداز کر کے زندگی بسر نہیں کرسکتا، زندگی بسر کرنا تو دور کی بات اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے، انہی سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ زندگی کیا ہے؟۔ شاعروں کے نزدیک زندگی پیار کا گیت ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب ہے۔ غم کے ماروں کے یہاں زندگی غم کا دریا ہے۔ زندگی کو چراہ گاہ سمجھنے والے کھالے، پیلے، جی لے میں مست ہیں، مذہبی شخص زندگی کو امتحان گاہ کے طور پر بسر کرتا ہے۔ مگر زندگی کے مفہوم کی بازیافت ہو یا فلسفے کے دقیقانہ مباحث یا زندگی کا الہامی تصور، کسی بھی نقطے کی گرہ کشائی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک غورو فکر اور زندگی برتنے کے عمل میں شعور کارفرما نہ ہو۔ اس شعور کے فقدان کی وجہ سے ہی انسان اپنی حقیقت فراموش کرکے زندگی کے میلے میں کھو جاتا ہے، دنیا کی چکا چوند میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسی سے ذہنی اور فکری مسائل جنم لیتے ہیں اور زندگی نا چاہتے ہوئے بھی آزار بن جاتی ہے۔

روز و شب کے معمولات میں عمل اور ردعمل کا انحصار ہمارے شعور پر نہیں بلکہ مزاج اور Mind Patterns یعنی ذہنی ساخت پر منحصر ہوتا ہے اور ذہن کی یہ ساخت از خود نہیں بنتی بلکہ اس کے بنانے والے عوامل میں، انسانی جین، اردگرد اور گھر کا ماحول شامل ہوتا ہے، اس طرز سے جو ذہنی سانچہ تیار ہوتا ہے اور اس تناظر میں ہمارا جو بھی عمل بروئے کار آتا ہے اور جو کچھ بھی ہم سیکھتے ہیں نفسیات کی زبان میں اسے کلاسیکل لرننگ کہتے ہیں، زندگی میں ہم جو کچھ جو دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں وہ غیر محسوس انداز میں ہمارے رویوں کی تشکیل کرتے ہیں، کسی خاص موقع پر کسی خاص رد عمل کا اظہار اگر بار بار کیا جائے تو یہ عمل ہمارے لاشعور میں پیوسط ہو کر ہماری عادت بن جاتا ہے اور عادت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ فطرتِ ثانیا ہے۔ گویا ہماری زندگی کا پورا طرزعمل ہی نہیں بلکہ طرز ِ فکر بھی ایک مخصوص ذہنی سانچے کا غلام بن جاتا ہے، پھر پوری زندگی اسی سانچے کے زیر اثر گزر نے لگتی ہے، یہ میکانکی عمل زندگی کو ایک ایسی مشین میں تبدیل کردیتا ہے جس میں اچھے اور برے کی تمیز نہیں ہوتی، ایسی زندگی سے شعور خارج ہوجاتا ہے، جب کہ شعور کے بغیر زندگی زندگی تو رہتی ہے مگر اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے تاہم کوئی بھی انسان اس نوع کی زندگی سے کبھی مطمئن نہیں ہوسکتا، اس کی زندگی اضطراب، بے چینی اور سراسیمگی میں گزرنے لگتی ہے، ڈپریشن اور اینگزائٹی اس کے وجود کے گرد گھیرا ڈال دیتی ہے، زندگی کا گھنیرا شجر اداسی اور قنوطیت کی آکاس بیل کی زد میں آجاتا ہے۔ دن بے کیف اور رات اماوس کی رات بن جاتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ انسان کبھی رک کر اپنے اس طرزِ عمل اور طرز فکر پر سوچنے اور غور وفکر کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، وہ اپنی ہر سوچ، ہر فکر، ہر عمل، طرزِ عمل اور ردِ عمل کو حق بجانب سمجھتے ہوئے زندگی گزارتا ہے، اس ذہن کے ساتھ بسر کی جانے والی زندگی اپنے اندر ہولناک تضادو تصادم رکھتی ہے کیوں کہ جس طرز عمل کو وہ درست سمجھتے ہوئے زندگی گزار رہا ہوتا ہے حقیقتاً وہ طرز عمل درست نہیں ہوتا ہے، فرد کا یہ رویہ اس کے اردگرد موجود افراد کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے، کئی افراد اس غلط طرز عمل کی نشاندہی کرتے ہیں اور جو نشاندہی نہیں کرتے وہ بھی ایک خاص ذہنی سانچے کے حامل ہوتے ہیں کہ جو اصلاح کی امید سے مایوس ہوتے ہیں، یوں فرد اسی ذہنی سطح پر کھڑے کا کھڑا رہتا ہے جہاں پہلے وہ کھڑا تھا۔

ایک اچھی اور خوشگوار زندگی شعور سے عبارت ہوتی ہے۔ شعور ہی انسان کا شرف ہے۔ شعور آگاہی کے در کھولتا ہے۔ شعور رنگ، نور اور روشنی کا نام ہے۔ شعور ہی سے زندگی بندگی میں ڈھلتی ہے۔ شعور ایک امانت ہے جو انسان میں ذمے داری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ شعور ایک ایسا فطری وصف ہے جو آدمی کو انسان بناتا ہے۔ یہ آدمی سے انسان بننے کا عمل ہے۔ شعور زندگی کے مسافر کی زادِ راہ ہے۔ شعور خالق کا اپنے مخلوق کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔ شعور ذرے کو آفتاب۔ صحرا کو گلزار۔ قطرے کو سمندر۔ تارے کو کہکشاں۔ پنکھٹری کو گلاب۔ ظلمت کو ضیا۔ صرصر کو صبا۔ زہر کو تریاق۔ بادِ سموم کو موجِ نسیم اور اندھیرے کو اجلالے میں بدلتا ہے۔ شعور زندگی کو زندگی سے ہمکنارکرتا ہے۔ مگر یہ انسان ہی کی کم نصیبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایک باشعور زندگی نہیں بنا پاتا، زندگی میں درآنے والے مسائل و مشکلات کی اہم وجہ اسی شعور کا فقدان ہے، زندگی میں شعور کی اہمیت یہ ہے کہ جو لوگ بے شعوری کی زندگی گزارتے ہیں ان سے متعلق قرآن کہتا ہے کہ یہ جانور ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر۔

ماہرین ِ نفسیات کا کہنا ہے کہ دنیا میں تقریباً پانچ سو ذہنی امراض ہیں اور ان امراض کے لیے تین سو کے قریب تھراپیز ہیں کہ جن کے ذریعے ان ذہنی عوارض کا علاج کیا جاتا ہے، جن تھراپیز کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے ان میں سرِ فہرست Cognitive behavioral therapy ہے، اس تھراپی کی اہم بات یہ ہے کہ یہ انسان کے شعور کو مخاطب کرتی ہے، اور انسانی سوچ میں در آنے والی کجی کی نشاندہی کرتی ہے، متاثرہ فرد کو حقیقت باور کروائی جاتی ہے، اسے اپنے شعور کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے اور سوال و جواب کے ذریعے اس غلط سوچ کی نشاندہی کرائی جاتی ہے جو سوچ اس کے کردار و عمل کا حصہ بنتی ہے۔

کسی عمل کے جواب میں فوری رد عمل نہ صرف ذہنی صحت متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں باہمی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں، چونکہ انسان جسم اور روح کا مرکب ہے اور ہر ایک کے اپنے تقاضے اور داعیات ہیں، انسان کا جسمانی وجود اپنے اندر حیوانی تقاضے رکھتا ہے، اس کی جبلت حیوانی جبلت کے مماثل ہے اس اعتبار سے جب شعور کی گرفت ڈھیلی پڑتی ہے تو جسم کے حیوانی جبلت کے تحت انسان فوری ردعمل پر مجبور ہوجاتا ہے اور یہ فوری ردعمل ہی گویا فساد کی جڑ ہے، یہیں سے خرابیاں جنم لینا شروع ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایک انسان اس صورتحال پر کیسے قابو پائے؟۔ بات پھر فلسفے تک پہنچے گی، جب انسان اپنی حیثیت، حقیقت، فرائض اور ذمہ داریوں سے غفلت برتتا ہے، اور اپنی زندگی کی گاڑی کو اپنی حیوانی جبلت، عادت اور نفس کی خواہش کی راہ میں آزاد چھوڑ دیتا ہے تو وہ غفلت کا مرتکب ہو جاتا ہے، اس غفلت میں وہ خود فراموشی کا شکار ہوتا ہے اور خود فراموشی خدا فراموشی پر منتج ہوتی ہے، جس کے بعد نہ اسے اپنے قول و عمل کی مسئولیت کا کوئی خیال ہوتا ہے نہ اپنی حیثیت، حقیقت، فرائض اور ذمے داریوں کا احساس، اس طرز عمل کے نتیجے میں زندگی جس گرداب میں پھنستی ہے اوپر اس کا حوالہ دیا جاچکا ہے، اس صورتحال سے نکلنے کی صورت یہی ہے کہ انسان کسی بھی ردعمل سے قبل اپنے شعور کو بروئے کار لائے اور یہ دیکھے کہ آیا جو رد عمل وہ دینے جارہا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ انگریزی کا یہ مقولہ ایک حقیقت ہے life is 10% what happens to you and 90% how you react مگر اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اہم نہیں ہے اہم یہ ہے کہ اس پر آپ کا ردعمل کیسا ہے؟ کوئی کسی پر ظلم ڈھا رہا ہے، کوئی کسی کا حق غصب کر رہا ہے، کوئی ناانصافی اور بددیانتی کا مرتکب ہو رہا ہے، ان تمام ترمنفی طرزعمل کے باوجود اصل سوال یہ ہے کہ ان زیادتیوں پر آپ کا ردعمل کیسا تھا؟ کیوں کہ آپ جو بھی ردعمل دیتے ہیں وہی آپ کا عمل ہے اور آپ صرف اور صرف اپنے عمل کے جوابدہ ہیں نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کے؟ دنیا میں ظلم زیادتی، ناانصافی، ٹیلنٹ کی ناقدری، اقربا پروری، میرٹ کا قتل، حق تلفی، غرض جو کچھ بھی رونما ہو رہا ہے اس میں اصل سوال یہی رہے گا کہ آپ کا ردعمل کیا تھا اور دنیا بھی آپ کا ردعمل ہی دیکھے گی کہ وہ مثبت تھا یا منفی!۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ردعمل کا انحصار بھی ہمارے شعور کی نوعیت پر ہوتا ہے شعور گہرا ہو تو ردعمل بھی عمدہ ہوتا ہے، شعور سطحی ہو تو ردعمل بھی سطحی ہو جاتا ہے۔