وہ بنگالی نیشنلسٹ جو بنگلادیش کی آزادی کی لڑائی میں ہیرو مانا گیا جس نے مکتی باہنی کے کمانڈر کی حیثیت سے لڑائی میں حصہ لیا۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری سال پاکستان میں گزارے ہے نا حیرت کی بات!! اپریل 1971ء میں وہ پاکستانی فوج میں میجر کے عہدے پر تھا۔ پھر وہ باغی ہو کر انڈیا کی مدد سے بننے والی مکتی باہنی سے جا ملا۔ وہ تھے میجر عبدالجلیل جو 1985ء کے نصف میں پاکستان آگئے اور پھر آخری دم تک پاکستان ہی میں رہے۔
اپریل 1971ء میں ایک اور باغی میجر ضیا الرحمن نے پہلی بار بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ عبدالجلیل نے بھی بریسال پر قبضے کے بعد بنگلادیش کا پرچم لہرایا تھا۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کے آفس کے ایک قاصد سے پاکستانی پرچم اُتار کر بنگلادیش کا پرچم لہرانے کا حکم دیا۔ یہ بنگالی تھا اس نے چوبیس برس تک پاکستانی پرچم لہرانے کی ڈیوٹی ادا کی تھی اس نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ میجر عبدالجلیل نے بے رحمی سے اس کو پھانسی دے دی۔
باریسال میں باغیوں کی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی بائیسویں فرنٹیئر فورس کو باریسال پر قبضہ ختم کرانے کا مشن سونپا گیا۔ اس مشن میں کیپٹن آفتاب نے بھی حصہ لیا تھا۔ یہ وہی میجر آفتاب ہیں جن کی کتاب ’’آخری سلام‘‘ مشرقی پاکستان کے میدان سے ’’2018ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں اس کے انتساب میں وہ لکھتے ہیں ’’پاکستان اور بنگلادیش کے عوام کے نام؛ جن کی کوکھ نظریے اور تاریخ شہدا اور غازی، ماضی کی تلخ یادوں اور حال کی سیاسی مصلحتوں کے باوجود ہمیشہ سانجھے رہیں گے۔ تم اور ہم 1971ء کے المیے، اس جنگ و جدل کے دوران، اس سے پہلے اور بعد آپس میں دشمن تھے نہ ہوسکتے تھے، کبھی اپنے ہم سفر اور ساتھی پھر عروس وطن کے حوالوں سے رقیب اور حریف اور اب اس کی یادوں میں کھوئے اس کے سپاہی اپنے (بنگالی لیفٹیننٹ) کا سلام محبت قبول کرنا جو تمہاری اور اپنی مشرقی سرحد پر شب و روز یہ سوچتے ہوئے پہرے پر رہا کہ اس کی پامالی میں اس کی نہیں تمہاری بھی شکست تھی۔ دشمن تو ایک ہی تھا جس کے ہاتھوں میں تم ہی نہیں ہم بھی کھیلے۔ تمہاری فتح تو قرار داد پاکستان ہی کی فتح ہوتی لیکن اس کی جیت میں ہم سب کی شکست تھی! میرا وہاں اور تمہارا وجود مٹ نہیں سکتا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو جز ہیں۔ لاہور کی سرحد پر مستعد اور چوکس کھڑے سینئر ٹائیگرز کے شہدا اور جیسور کی بارکوں میں جنگ جمل کے شکار اس وجود کے دائمی گواہ رہیں گے‘‘۔
سچ ہے کہ خانہ جنگی کے المیے کے تناظر میں یہ ایک انتہائی اہم کتاب ہے جو اگلے مورچوں کے کسی مکین نے ’’وفادار‘‘ دستوں کے باغی فوج (مکتی باہنی) سے جنگ و جدل کے بارے میں تحریر کی ہو۔ جو انہوں نے خاک سے جا ملنے سے قبل ہی کئی حوالوں سے نامہ اعمال کو نئی منزلوں کے نئے راہی نئی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا۔ سبق حاصل کرنے والوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہی میجر آفتاب اپنی ایک اور کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ میں میجر عبدالجلیل کے ساتھ اپنی معرکہ آرائی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’وہ چھے ماہ تک باریسال سے نکلنے کے بعد سندر بن کے جنگلات میں کیمپ بنا کر چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہے اور مکتی باہنی کے رضا کاروں کو تربیت دیتے رہے‘‘۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ واحد کمانڈر تھے جو بنگلادیشی حکمرانوں اور مکتی باہنی کے اصرار کے باوجود ایک روز کے لیے بھی اپنا تربیتی کیمپ انڈین سرزمین پر منتقل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور بنگلادیش کی آزادی کے بعد ان چند افسران میں شامل تھے جنہوں نے انڈین افواج کی بنگلادیش میں لوٹ مار پر احتجاج کیا اور انہیں ملک سے نکل جانے کو کہا۔ بنگلادیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمن نے اپنے ہاتھوں سے میجر عبدالجلیل کے سینے پر ملک کا سب سے بڑا بہادری کا تمغہ ’’بیراتم‘‘ سجایا لیکن انہوں نے کرنل شریف دالم کی طرح ان کی انڈین نواز پالیسیوں سے نالاں ہو کر اسے واپس کردیا۔
انڈین مداخلت اور بنگلادیش کی خودمختاری پر حاوی ہوتے اشاروں کے ردعمل کے طور پر انہوں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا، اپنی جماعت بنائی، الیکشن میں 1973ء میں حصہ لیا لیکن ایک سیٹ پر بھی کامیابی نہ ہوئی۔ دو دفعہ کئی سال کے لیے جیل میں ڈال دیے گئے، رہا ہوئے تو پھر 1981ء میں پھر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام ہوئے، دل برداشتہ ہوئے اور سابقہ وطن واپس لوٹ آئے، جہاں گم نامی کی زندگی گزار کر نومبر 1989ء میں انتقال کرگئے۔ ان سے قریبی لوگ ان کے آخری ایام کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ مکتی باہنی کے ہاتھوں اپنے مخالفین جن میں جماعت اسلامی کے رضا کار اور پاکستان کے حامی بہاری لوگ شامل تھے ان پر تشدد اور بے رحمی سے قتل پر انتہائی کرب میں مبتلا تھے۔
ہائے اس زود پشیمانی کا پشیماں ہونا