عالمی تنظیم سی پی جے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 30 برسوں میں 2024 سب سے زیادہ صحافیوں کے لیے خونیں سال رہا، اس سال 124 صحافی قتل کیے گئے۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے ایک تہائی سے زائد ہلاکتوں کا ذمے دار اسرائیل ہے، جس نے خاص طور پر غزہ میں 85 صحافیوں کو نشانہ بنایا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل نے صحافیوں کو ظلم و دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہو۔ ماضی میں بھی اسرائیل صحافیوں پر قاتلانہ حملے کرتا رہا ہے اور کھلے عام کرتا رہا ہے، جن میں الجزیرہ کی معروف صحافی شیریں ابو عاقلہ کا قتل بھی شامل ہے۔ انہیں دن دہاڑے گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا، اور بعد میں اسرائیل نے ان کے قتل کی ذمے داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح 2018 میں بھی کئی فلسطینی صحافی اسرائیلی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے، جن میں یاسر مرتضیٰ جیسے فوٹو جرنلسٹ شامل ہیں۔ سی پی جے کی رپورٹ کے مطابق 18 ممالک میں 124 صحافیوں کو قتل کیا گیا، جن میں 24 صحافی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر 10 صحافیوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا، جب کہ مزید 20 کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا حصہ ہے، جس کا مقصد میدانِ جنگ سے سچ کو دبانا ہے۔
2023 میں 102 اور 2022 میں 60 صحافی قتل ہوئے تھے، لیکن 2024 میں یہ تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ صحافیوں کو دبانے کے لیے ظلم و جبر کی ایک نئی لہر شروع ہو چکی ہے، اور اسرائیل اس ظلم میں سب سے آگے ہے۔ یہ صورتحال صرف صحافیوں تک محدود نہیں بلکہ فلسطینی قیدیوں پر صہیونی مظالم کی داستان بھی انتہائی خوفناک ہے۔ صہیونی جیلوں سے رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کی حالت زار ان مظالم کا کھلا ثبوت ہے۔ کئی قیدیوں کی ہڈیاں توڑ دی گئیں، ان کے ہاتھ، پاؤں، پسلیاں، اور جبڑے چکنا چور کر دیے گئے، تاکہ وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو جائیں۔ فلسطینی کلب برائے اسیران کے مطابق غزہ سے تعلق رکھنے والے 18 قیدیوں سے النقب جیل اور ’سدی تیمان‘ کیمپ میں ملاقات کی گئی، جہاں کئی قیدیوں نے تشدد کی بھیانک داستانیں بیان کیں۔ ایک قیدی نے بتایا کہ اس کے دونوں ہاتھ توڑ دیے گئے اور اسے مسلسل باندھ کر رکھا گیا۔ یہ مظالم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک ہزاروں فلسطینیوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا، جہاں ان پر ناقابل ِ بیان تشدد کیا گیا۔ حالیہ رپورٹوں کے مطابق، اس وقت بھی 9,000 سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں موجود ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے ادارے، اور نام نہاد جمہوری ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہی خاموشی ظالم کو مزید بے خوف بنا دیتی ہے۔ صحافت پر حملے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں عالمی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ اگر آج دنیا نے ان مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو شاید کل کسی اور جگہ صحافت اور آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹا جائے گا۔ کیا دنیا کو مزید لاشوں کی ضرورت ہے کہ وہ جاگے؟