نوجوان ملکی سسٹم سے مایوس اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں،اسی وجہ سے ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں

396

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) نوجوان ملکی سسٹم سے مایوس اور اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں‘ اسی و جہ سے ملک چھوڑکر جانا چاہتے ہیں‘ نجی اداروں میں کم تنخواہیں اور سرکاری ملازمتوں میں اقربا پروری عروج پر ہے، کاروبار کے لیے بلاسود قرضوں کی عدم دستیابی، اعلیٰ تعلیم کے کم مواقع اور ناقص تعلیمی نظام ہے‘ امن و امان کی خراب صورتحال اور سیاسی عدم استحکام نے ملکی مسائل کوگمبھیرکیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممبر صوبائی اسمبلی (ایم پی اے) اور پارلیمانی سیکرٹری برائے کھیل و امورِ نوجوانان ایڈووکیٹ صائمہ آغا، اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد عدنان پراچہ، آغا خان یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ساجد علی، پاکستان ڈرگ لائیر فورم کے صدر ڈاکٹر نور محمد مہر، معروف ماہر ماحولیات، کالم نگار سعدیہ عبید خان، جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ایم فل کرنے والی ریسرچ اسکالر فوزیہ جمیل اور اسٹوڈنٹس پیرینٹس فیڈریشن آف پاکستان کے چیئرمین ندیم مرزا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑکر کیوں جانا چاہتی ہے؟‘‘ صائمہ آغا نے کہا کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ چند برسوں سے شدید بحران کا شکار رہی ہے اور مہنگائی میں بھی بے پنا اضافہ ہوا ہے جو محدود روزگار کے مواقع تھے وہ نوجوانوں کو پاکستان میں دستیاب نہیں ہو رہے جس کی وجہ سے بیرون ملک ملازمتوں کی طرف ہمارے نوجوان بڑی تعداد میں راغب ہو رہے ہیں‘ ورلڈ بینک کی رپورٹ کو اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن نوجوانوں کو اچھی تنخواہیں نہیں مل رہی ہے‘ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نوجوان اپنا100 فیصد وقت دینے اور9 ٹو 5 سے زیادہ کام کرنے کے باوجود بھی انہیں وہ سیلری یا پیکج نہیں مل رہا تھا جو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے انہیں چاہیے ‘ سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال بھی ہے‘ سیاسی بحران، احتجاج حکومتوں کی تبدیلی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے بھی نوجوانوں کو مایوس کیا ہے‘ حکومتوں کے بار بار تبدیل ہونے اور پالیسیوں میں عدم استحکام اور تسلسل برقرار نہ رکھنا سے بھی سرمایہ کاری متاثر ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے نوجوانوں کو بیرون ملک جانے پر جو زیادہ مجبور کر رہی ہے وہ ہمارا تعلیمی سسٹم بھی ہے آپ دیکھیں کہ پاکستان میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں جو دور حاضر کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر ہمارے طلبہ کو پڑھا رہی ہیں‘کتنی یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) پر کام ہو رہی ہیں‘ میں سمجھتی ہوں کہ ایک بھی کام نہیں کر رہی ہیں‘ صحت و تعلیم، صاف پانی کی فراہمی اور دوسری چیزوں کا بھی ہمارے ملک میں فقدان ہے‘ اس لیے نوجوان ترقی یافتہ ممالک میں بسنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہے‘ جرائم، دہشت گردی اور عدم تحفظ کی فضا نوجوانوں کو دوسرے ممالک میں محفوظ زندگی گزارنے پر آمادہ کر رہی ہے‘ خواتین کے لیے مواقع محدود ہیں اور ان کے تحفظ کے حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں‘ کئی تعلیم یافتہ خواتین بیرون ملک مستقل ہونے کو ترجیح دیتی ہے‘ ہراسمنٹ کے واقعات یہاں زیادہ دیکھنے میں آرہے ہیں‘ کاروبار کے لیے غیر مستحکم حالات، زیادہ ٹیکسز اور حکومتی پالیسیوں کے عدم تسلسل کی وجہ سے کاروباری حضرات بھی بیرون ملک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں‘ کینیڈا، آسٹریلیا ،جرمنی اور دیگر ممالک نے امیگریشن پالیسیوں کو آسان بنایا ہوا ہے جس سے پاکستانی نوجوانوں کے لیے مواقع پیدا ہو رہے ہیں‘ کرپشن، لاقانونیت اور اداروں میں میرٹ نہ ہونا بھی نوجوانوں کو مایوس کر رہا ہے۔ محمد عدنان پراچہ نے کہا کہ سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں برسر روزگار ہیں، جہاں پاکستانی افرادی قوت 25 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہیں سے سب سے زیادہ ترسیلات زر پاکستان کا رخ کرتی ہیں‘ پاکستان سے سالانہ 5 لاکھ افرادی قوت سعودی عرب جا رہی ہے‘ اس وقت سعودی عرب اپنے 2030ء کے وژن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان سے سالانہ 10لاکھ افرادی قوت کی خدمات کا خواہاں ہے لیکن ابھی ہم اس ہدف سے بہت پیچھے ہیں‘ سعودی عرب کرچی قونصلیٹ میں بہت جلد اسٹاف بڑھا دیا جائے گا جس کا مقصد ویزے کے اجرا کا عمل تیز کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کم وقت میں سہولیات فراہم کرنا ہے‘ سعودی قونصلیٹ کراچی پاکستان کا واحد قونصل خانہ ہے جو روزانہ 23 سو سے 24 سو افراد کو ویزا فراہم کر رہا ہے‘ مستقبل میں سعودی عرب میں آئی ٹی انجینئرز اور میزبانی کے شعبہ میں افرادی قوت درکار ہوگی‘ سیاحت و تعمیرات کے شعبے میں ہنر مند افراد کی اشد ضرورت ہے‘ اگر ہم تجربہ کار یا ہنر مند افراد کو بھیجیں گے تو اس سے ان شہریوں اور ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا‘ سعودی عرب جانے کے خواہاں ہنر مند شہری ایک دو ماہ اگر بنیادی عربی اور انگریزی زبان سیکھ لیں تو نہ صرف ان کی سعودیہ میں رہائش سہل ہو جائے بلکہ انہیں ترقی کے نئے مواقع بھی مل جائیں‘ اس وقت بھی 7 سے 8 ارب ڈالر ترسیلات زر میں اضافہ ہوسکتا ہے، سعودی عرب سے 25 سے 27 فیصد ترسیلات زر آرہی ہیں متحدہ عرب امارت سے20 سے 21 فیصد آرہی ہے سب سے زیادہ سعودی عرب سے افرادی قوت ترسیلات زر بھیج رہے ہیں اور یہ 35 سے 37 فیصد تک جا سکتا ہے‘ 70 فیصد افرادی قوت مزدور ہے‘ ان کے لیے پروجیکٹس لانچ کیے جائیں ان کی آسانی کے لیے ایسا میکینزم ہو کہ وہ اپنے کمرے میں ایک کلک سے رقم پاکستان بھیج سکیں اور آدھے گھنٹے میں وہ رقم ان کے گھر والوں تک پہنچ جائے۔ ڈاکٹر ساجد علی نے کہا کہ ملک کی سیاسی اور معاشرتی صورتحال نے نا صرف نوجوانوں بلکہ بڑی عمر کے افراد کو مایوس کردیا ہے اور انہیں اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے‘ ملک میں ترقی کرنے کے مواقع بے حد کمی ہیں‘ ایک نوجوان اپنی محنت کے بجائے کسی سفارش اور تعلقات کا محتاج ہے‘ ملک میں انڈسٹری کم اور پلاٹ زیادہ کمائی کا باعث ہیں‘ ایک متوسط طبقے کا نوجوان اپنے والدین کی جمع پونجی اچھی تعلیم کے حصول پر خرچ کردیتا ہے اور جب جوان ملازمت کی تلاش کرتا ہے تو مواقع میسر نہیں ہوتے‘ اب وہ باہر جاکر اچھے ذرائع کی تلاش نہ کرے تو کیا کرے‘ ایک غریب نوجوان کی کہانی اس سے بھی زیادہ ابتر ہے اور ان میں سے بہت سے بے چارے غیر قانونی راستوں سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور کئی تو حادثات کا شکار ہوکر دنیا ہی چھوڑجاتے ہیں۔ سعدیہ عبید خان کا کہنا ہے کہ ملک میں امن و امان کی بدترین صورتحال ہے، روزگار کے مواقع کم ہیں، میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں‘ میرا نہیں خیال ہے کہ آپ اور میں بھی نہیں رہنا چاہیں گے کیونکہ یہاں کوئی چیز خوش آئند نہیں ہے‘ ٹیکسز بڑھا رہے ہیں‘ بجلی ہوتی نہیں اور بلز بہت زیادہ ہیں تو جو بنیادی سہولیات ہیں وہ حکومت بالکل بھی نہیں دیتی ہے اور اس میں لوگوں کا گزارنا کرنا بہت مشکل ہو تا جا رہا ہے‘ بچے اچھا پڑھ بھی لیں تو نوکریاں اس طرح نہیں ملتی ہیں‘ سندھ اور کراچی میں سرکاری نوکریوں کے حوالے سے بہت ہی خراب صورتحال ہے‘ کراچی میں کبھی کوئی موبائل چھنتے ہوئے مار دیتا ہے تو کبھی کوئی ڈمپر والا مار کر چلا جاتا ہے تو اس طرح کی صورتحال میں کون رہے گا۔ ڈاکٹر نور محمد مہر نے کہا کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑ کر اس وجہ سے جانا چاہتی ہے کہ پاکستان میں قانون کا نفاذ نہیں ہے اور وہ یہاں پر اپنا مستقبل تاریک دیکھ رہے ہیں جس ملک میں قانون کی حکومت نہ ہو اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہو‘‘ تو وہاں اس طرح کی صورتحال ہوتی ہے‘ کرپشن اور اقرابا پروری کی وجہ سے شریف لوگوں کا رہنا مشکل ہوگیا ہے تو پاکستان میں برین ڈرین بہت زیادہ ہو رہا ہے، ڈاکٹرز انجینئرز اور دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پاکستان سے چلے گئے ہیں یا جا رہے ہیں‘ کینیڈا، امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مواقع اور تنخواہیں زیادہ ہیں۔فوزیہ جمیل نے کہا کہ صحافتی اداروں کو پابند کرکے تشدد کی اتنی فضا قائم کردی گئی ہے کہ اب صحافی ہونا بھی ایک گناہ لگنے لگا ہے‘ خاص طور پر پیکا کے قانون کے بعد تو عام شہری خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں‘سرکاری و نجی ملازمتیں ناپید ہیں‘ صحافی بھی اب انٹرنیشنل میڈیا میں اپنے آپ کو منوانا چاہتے ہیں ‘ پاکستان میں اس وقت نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہے‘ حکومت ضرورت مند افراد کے لیے کاروباری قرضے اور کاروبار کے مراحل کو آسان بنائے جو مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے تعلیم کو سستا کیا جائے‘ جدید ٹیکنالوجی کو سیکھنے کے لیے سستے مراکز قائم کرے‘ ملک میں تعلیم کو اتنا مہنگا کردیا ہے کہ ہم باہر جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرلیں‘ یہاں ایسا کچھ میسر نہیں ایک مخصوص طبقہ مسلسل ملکی وسائل اور اس کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہا ہے‘ معیشت کا برا حال دیکھ رہے ہیں‘ کاروباری برادری کا اپنے کاروبار کو بند کر رہی ہے۔ ندیم مرزا نے کہا کہ نوجوانوں کی ملک سے ہجرت کی بڑی وجہ ملک میں جاری سسٹم سے مایوسی ہے‘ نجی روزگار میں کم تنخواہیں، سرکاری ملازمتوں میں اقربا پروری، کاروبار کے لیے بلاسود اور کم سود کے والے قرضوں کی عدم دستیابی، اعلیٰ تعلیم کے کم مواقع اور ناقص تعلیمی نظام، امن و امان کی ناقص صورتحال، ناانصافی پر مبنی نظام انصاف اور سیاسی عدم استحکام اس کی اصل وجوہات ہیں جو نوجوانوں کو ملک کے مستقبل سے نا امید کر رہی ہیں۔