ڈھاکا :حسینہ واجد دور میں تشدد سے ڈیڑھ ہزا ر مظاہرین کی ہلاکت کا انکشاف

120

جنیوا ( مانیٹرنگ ڈیسک ) اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے بدھ کے روز اعداد و شمار کا اندازہ لگایا ہے کہ بنگلا دیش میں گزشتہ موسم گرما کے چھے ہفتوں کے دوران ممکنہ طور پر 1400 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ہلاکتیں اس دوران ہوئیں جب بنگلا دیش کی معزول سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ایک نئی رپورٹ میں جنیوا میں قائم دفتر نے کہا ہے کہ سیکورٹی اور انٹیلی جنس سروسز نے منظم طریقے سے حقوق کی خلاف ورزیاں کیں جو انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہو سکتی ہیں اور ان پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ مختلف معتبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دفتر برائے انسانی حقوق نے کہا ہے کہ یکم جولائی سے 15 اگست
کے درمیان ہونے والے مظاہروں میں ممکنہ طور پر تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے جن میں سے زیادہ تر کو بنگلا دیش کی سیکورٹی فورسز نے گولی ماری تھی۔اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے ان علامات کا حوالہ دیا کہ احتجاج کو دبانے کے لیے ماورائے عدالت قتل، وسیع پیمانے پر من مانی گرفتاریاں اور نظربندیاں اور تشدد کیا گیا جو سیاسی قیادت اور اعلیٰ سیکورٹی حکام کے علم اور تعاون سے ہوا۔اقوامِ متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کو ملک کے عبوری رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی دعوت پر بنگلا دیش میں تعینات کیا گیا تھا تاکہ اس بغاوت کا جائزہ لیا جائے جس نے بالآخر وزیر اعظم شیخ حسینہ کو بھارت فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹاسسٹم سے مایوس طلبہ نے پرامن مظاہروں کا آغاز کیا جو غیر متوقع طور پر حسینہ واجد اور ان کی حکمران جماعت عوامی لیگ کے خلاف ایک بڑی بغاوت میں بدل گیا تھا۔