حالیہ خشک سالی کے اسباب اور ممکنہ اثرات

334

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے تاہم حالیہ برسوں بالخصوص اس سال ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث زراعت، معیشت اور عوامی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس خطرناک اور پریشان کن خشک سالی کے پیچھے ویسے تو کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق خود انسان کے پیدا کردہ مسائل سے متعلق ہے جن میں چند نمایاں مسائل عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں، آبی وسائل کی مسلسل کمی اور ناقص حکومتی منصوبہ بندی قابل ذکر ہیں۔ ماضی میں ان ایام میں ہمیں جب بھی موٹروے پر پشاور اور اسلام آباد کے درمیان سفر کا موقع ملتا تو اس عرصے میں موٹر وے کے دونوں جانب گندم کے وسیع وعریض سرسبز وشاداب فصل کے ساتھ ساتھ سرسوں کے قطار اندر قطار خوبصورت لہلہاتے کھیت دیکھنے کو ملتے تھے لیکن اس سال وقت پر بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اس روح پرور منظر کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس رہی ہیں۔

ان ہی ایام میں تقریباً چار پانچ سال سے مجھے مہمند اور ضلع باجوڑ کے سنگم پر ایک وسیع وعریض کیمپس میں مرکزی شاہراہ پر قائم کیڈٹ کالج مہمند (مامد گٹ) میں زیر تعلیم اپنے دو بیٹوں اور ایک بھتیجے سے ملاقات کے لیے جانا پڑتا ہے۔ پچھلے کئی سال کے دوران میں ان ہی دنوں میں جب بھی پشاور اور چارسدہ کے سرسبز وشاداب اضلاع سے ضلع مہمند میں داخل ہوتا ہوں تو یکہ غونڈ سے دروازگئی ٹاپ کے درمیان واقع علاقے جسے کڑپہ اور ڈنڈونہ کہتے ہیں کی پہاڑیاں عموماً خشک اور بے آب وگیا ہونے کے باوجود ان پہاڑیوں پر اِن دنوں میں بارشوں کی وجہ سے تھوڑا بہت سبزہ نظر آتا ہے جہاں مال مویشی چر رہے ہوتے ہیں البتہ جب گزشتہ اتوار کو مجھے یہاں سے گزرنے کا موقع ملا تو اس سال موسم سرما کی بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے یہ سارا علاقہ انتہائی خشک سالی کا شکار نظر آیا یہاں نام کو بھی سبزہ دیکھنے کو نہیں ملا جس کے اثرات یہاں خال خال نظر آنے والی بھیڑ بکریوں اور گائیوں کی خستہ حالی اور لاغری کی صورت میں نظر آرہے تھے چونکہ سڑک کا یہ حصہ ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے کچھا ہے تو شدید خشک سالی کی وجہ سے یہاں سے گزرنے والی گاڑیاں وہ گرد وغبار اُڑاتی دکھائی دیتی ہیں جس میں گاڑی کے شیشے بند ہونے کے باوجود سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح غلنئی سے آگے حلیم زئی، نحقی، صافی، غازی بیگ، قندھاری، لکڑو، بھوتہ اور مامدگٹ تک کے علاقے چونکہ نسبتاً ہموار ہیں تو اس موسم میں ہمیں یہاں سڑک کے دونوں جانب اکثر کھیتوں میں گندم اور سرسوں کی فصلیں لہلہاتی ہوئی نظر آتی تھیں لیکن اس سال چونکہ بارشیں نہیں ہوئیں تو اس کے واضح اثرات ہمیں اس سارے علاقے میں گندم اور سرسوں کی فصلیں یا تو نہ ہونے کے برابر اور یا پھر انتہائی خشک سالی کی شکار نظر آئیں جس سے یہ سارا علاقہ ایک عجیب قسم کی ویرانی اور افسردگی کا منظر پیش کررہا تھا۔

دراصل حالیہ شدید ترین خشک سالی کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث پاکستان میں بارشوں کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مون سون بارشوں میں کمی اور درجہ حرارت میں اضافے نے خشک سالی کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ سائنسی تحقیق کے مطابق، پاکستان میں درجہ حرارت میں ہر سال تقریباً 0.5 ڈگری سیلسیئس اضافہ ہو رہا ہے جو مستقبل میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے دریا زیادہ تر ہمالیائی گلیشیرز سے جڑے ہوئے ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر یہ عمل اسی رفتار سے جاری رہا تو آئندہ چند دہائیوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے جس کا براہ راست اثر زرعی مقاصد اور پینے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی قلت کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔ ہمارے ہاں بڑے ڈیموں اور آبی ذخائر کی کمی بھی خشک سالی کا ایک بڑا سبب ہے۔ چونکہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود ہے جس کی وجہ سے خشک سالی کے دوران پانی کی قلت شدت اختیار کر رہی ہے۔ ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے ذخائر کو بہتر نہ بنایا گیا تو مستقبل میں یہ مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جنگلات بارشوں کے نظام کو متوازن رکھتے ہیں اور زمین کی نمی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں تاہم پاکستان میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی جا رہی ہے جس سے زمین بنجر ہو رہی ہے اور خشک سالی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ جنگلات کی بحالی اور موثر شجرکاری مہموں کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ حالیہ خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں شدید کمی کا اندیشہ ہے جس کا نتیجہ ملک میں غذائی بحران کی شکل میں سامنے آنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ زرعی پیداوار گھٹنے سے برآمدات میں کمی اور تجارتی خسارہ بڑھنے کا امکان ہے۔ مزید برآں اس صورتحال سے کسانوں کو بھاری مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خشک سالی کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، جس کے باعث دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت میں اضافہ ہو سکتا ہے جو شہری علاقوں میں بے روزگاری اور غربت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

اس چیلنج کا مقابلہ جہاں نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر کے ذریعے بڑے پیمانے پر پانی کی دستیابی کی صورت میں کیا جا سکتا ہے وہاں ڈرپ ایریگیشن اور دیگر جدید طریقوں کے ذریعے بھی پانی کے استعمال میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جنگلات کی بحالی اور شجرکاری مہموں کے ذریعے بھی بارشوں کے نظام کی بحالی پر کام کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے غیر ضروری ضیاع کو روکنے کے لیے عوامی شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر سخت پالیسی نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ درحقیقت ہمیں اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستان میں حالیہ خشک سالی ایک سنگین مسئلہ ہے جو مختلف شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت کو آبی وسائل کے بہتر انتظام، جدید زراعتی تکنیکوں کے فروغ اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات اٹھانا نہ صرف وقت کا تقاضا ہے بلکہ اگر یہ اقدامات بروقت نہ کیے گئے تو آنے والے ماہ وسال میں پاکستان کو پانی اور غذائی بحران کا شدید سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔