دوسری صدارتی مدت میں صدر ٹرمپ نے آتے ہی جو طوفانی ہلچل پیدا کی اس کے آفٹرشاکس کے بعد وہ اپنے فیصلوں سے رجوع کرتے نظر آرہے ہیں۔ ان کے اقتدار سنبھالنے کے اڑتالیس گھنٹوں میں ہی انٹرنیشنل ٹریڈ اور اکانومی ہچکولے کھاتی نظر آنے لگی۔ انہوں نے میکسیکو، کینیڈا اور چین پر بھاری ٹیرف اور ٹیکسز لگا کر ٹریڈ وار چھیڑدی۔ جواباً ان ملکوں نے بھی امریکا پر بھاری ٹیکس اور ٹیرف لگانے کا اعلان کردیا۔ ٹرمپ نے فوراً یوٹرن لیتے ہوئے میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فی صد ٹیرف ایک مہینے کے لیے موخر کردیا۔ چین کی امپورٹ پر دس فی صد ایکسٹرا ٹیکس لگانے کے معاملے پر بھی پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ گرین لینڈ پر قبضے اور کینیڈا کو امریکا کا اکیاون واں صوبہ بنانے کے معاملے میں بھی ان کا جوش ماند پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ دیگر معاملات پر بھی وہ اپنے بنیادی موقف میں لچک پیدا کرتے نظر آتے ہیں لیکن اگر کسی معاملے میں وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں تو وہ غزہ کا معاملہ ہے۔ غزہ ان کے خیال میں وہ آسان ترین ہدف ہے جسے وہ حاصل کرسکتے ہیں۔
4 فروری 2025 کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ بیٹھ کر جب صدر ٹرمپ یہ اعلان کررہے تھے کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلے گا۔ ہم اس کے مالک ہوں گے تو وہ غزہ کو ایک بلڈرز اور ڈویلپر کی نظر سے دیکھ رہے تھے جس سے امریکی صدر کے فکری بانجھ پن اور بے لگام شہدے پن کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ صاحب دماغ کے بجائے ایسے شخص نظر آرہے تھے جس کی ذہانت خشک ہو چکی ہوجو دنیا کو محض رئیل اسٹیٹ کی نظرسے دیکھتا ہو۔ انسانی بستیاں جس کے لیے محض کارنر پلاٹ ہوں۔ ایسا خیال تو کسی اسرائیلی وزیراعظم کو کبھی کسی بین الاقوامی فورم پر پیش کرنے کی جرأت بھی نہیں ہوئی۔ غزہ کی نسلی صفائی کے منصوبے کو صدر ٹرمپ کی بکواس کرنے کی عادت بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک تحریری بیان تھا جسے صدر ٹرمپ ایک کاغذ پڑھتے ہوئے اعلان کررہے تھے جس کا ایک ایک جملہ، نکتہ اور شوشا بھی بہت دھیان اور باریک بینی سے سوچ سمجھ کر تحریرکیا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ کسی ٹی وی شو کے میزبان یا کوئی عام سیاست دان نہیں دنیا کے سب سے طاقت ور ملک کے صدر ہیں جس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اپنی ایک قیمت اور قوت رکھتے ہیں۔
اسرائیل کے وزیر ِ خزانہ بزالیل سموٹرچ کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے سات اکتوبر حملے کے بعد کے غزہ کے مستقبل کا جواب دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جن لوگوں نے ہماری سر زمین پر بدترین قتل عام کیا، وہ ہمیشہ کے لیے اپنی زمین کھو دیں گے۔ اب ہم بالآخر خدا کی مدد سے فلسطینی ریاست کے خطرناک خیال کو ہمیشہ کے لیے دفنانے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے ’’نازک معاہدے‘‘ کے عملاً ختم ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ جنگ بندی معاہدے پر آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اب معاہدے پر عمل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ کب حماس اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل کرتی ہے اور کب 21 لاکھ اہل غزہ کو ختم کردیا جائے یا ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل کرکے دنیا بھر میں تتر بتر کردیا جائے تاکہ وہاں ٹرمپ بلڈرز اینڈ ڈویلپرز اپنے پارٹنرز کی مدد سے مستقبل کا مڈل ایسٹ ریویرایا ساحلی تفریح گاہ بنا سکیں۔ اور اسے نائس پلیس اور بیسٹ ان دی ورلڈ پلیس بناسکیں۔
حماس کے مجاہدین نے صدر ٹرمپ کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھا اور لیا ہے۔ انہوں نے صدرٹرمپ کے الفاظ کو تمام سنجیدگی کے ساتھ سمجھا اور یرغمالیوں کی رہائی روک دی۔ 11 فروری روزنامہ جسارت کی شہ سرخی تھی ’’معاہدے کی خلاف ورزی، حماس نے یرغمالیوں کی رہائی روک دی۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکی ملکیت میں غزہ ایک بڑی رئیل اسٹیٹ سائٹ ہوگی۔ حماس کو واپس نہیں آنے دینگے۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں پر حماس نے یرغمالیوں کی رہائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے اپنے بیان میں یرغمالیوں کی رہائی روکنے کا اعلان کیا۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ گزشتہ 3 ہفتے کے دوران مزاحمتی گروہوں نے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی متعدد خلاف ورزیوں کو نوٹ کیا جن میں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ واپسی میں تاخیر کرنا اور ان پر بمباری کرنا بھی شامل تھا‘ متعدد علاقوں میں طے شدہ طریقے کے مطابق امداد بھی نہیں پہنچائی گئی جبکہ مزاحمتی گروہوں نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی۔ ابو عبیدہ نے کہا کہ ان وجوہات کے باعث ہفتے کے روز یعنی 15 فروری 2025ء کو اسرائیلی یرغمالیوں کی ہونے والی رہائی کو اگلے احکامات تک روک دیا گیا ہے‘ یہ رہائی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک اسرائیل معاہدے میں طے شدہ نکات پر عمل نہیں کرتا اور اس حوالے سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کرتا‘ جب تک اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل کرتا رہے گا تب تک وہ بھی معاہدے پر عمل درآمد کریں گے‘‘۔
اہل فلسطین کے لیے یہودی وجود اسرائیل کے قیام کے ساتھ نکبہ کی یادیں جڑی ہیں جب مغرب کے دلوں میں ان کے لیے جذبہ رحم ختم ہو گیا تھا۔ امریکا اور عیسائی دنیا نے ان کے حقوق کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں نکبہ کی تباہی سے دوچار کردیا تھا۔ فلسطینی 1948 میں اسرائیل کی آزادی کے بعد جبری طور پر اپنی زمینوں سے بے دخل کیے جانے کے واقعے کو نکبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جب انہیں مارنے اور بے دخل کرنے کا عمل ساتھ ساتھ جاری تھا۔ سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو یا تو اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا یا انہیں اسرائیلی مسلح فورسز نے زبردستی انہیں ان کے علاقے سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے محض چند کو ہی واپس جانے کی اجازت دی گئی تھی اور اسرائیل نے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ آج بھی فلسطینیوں کی جائدادوں پر قبضہ کر لیتا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ارادوں کو دیکھتے ہوئے اب تشویش یہ ہے کہ ایسا ایک بار پھر ہو سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اور صہیونی انتہا پسندوں کے نزدیک اہل غزہ انسانی آبادی نہیں وہ عجیب وغریب شکلیں ہیں جو ظلم ڈھانے کے لیے بنائی گئی ہیںجنہیں مار نے کاٹنے اور بے دخل کرنے کے لیے جنگ مسلط کرنا کوئی ناممکن اور مشکل فیصلہ نہیں۔ اب حماس کو ختم کرنے کی آڑ لے کر ایسا کرنا بہت آسان ہے۔ بائیڈن نے ڈیڑھ سال تک اٹھارہ ارب ڈالر کا اسلحہ اسرائیل کو دیا کہ وہ غزہ کے انتہائی مختصر اکتالیس کلو میٹرطویل اور چھے تا بارہ کلو میٹ چوڑی غزہ کی پٹی کو ڈیمولیشن سائٹ بناسکے۔ اب جب کہ یہ ڈیمولیشن سائٹ بن چکا ہے تو ’’انسانی ہمدردی‘‘ کے نام پر لوگوں کو یہاں سے نکال کر کسی پر امن جگہ میں بسادیا جائے جہاں ان کے سروں پر موت نہ منڈلاتی ہو۔ اب یہ جگہ رہنے کے قابل تو نہیں رہی لیکن رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کے لیے بہترین ہے جہاں کروڑوں لگاکر اربوں کمائے جاسکیں گے۔
صدر ٹرمپ محدود سوچ، اپنے مقاصد کے شعور سے آگے نہ جانے والے اور محدود ذخیرہ الفاظ کے حامل شخص ہیں اس لیے وہ اپنے اصل ہدف کو زیادہ دیر مخفی نہیں رکھ سکتے۔ وہ اپنے مخالف کو موت دکھاکر بخار پر لانے کو آرٹ آف ڈیل گردانتے ہیں۔ امریکی صدر کے لیے مخصوص ائر فورس ون طیارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنا اصل مدعا اس طرح بیان کیا کہ ’’میں غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کے لیے پرعزم ہوں، تاکہ اس کے کچھ حصوں کی تعمیر کی جا سکے، ہم اس کی ملکیت حاصل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ حماس واپس نہ آسکے‘‘۔ حماس کو روکنا اور غزہ سے بے دخل کرنا صدر ٹرمپ کا اس سارے ہنگامے سے وہ مقصد ہے جسے اسرائیل پندرہ ماہ تک بمباری سے حاصل نہ کرسکا۔ صدر ٹرمپ یہ سارا ماحول اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بنارہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا ہدف فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کو ختم کرنا ہے حماس جس کی عملی شکل ہے۔