غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ

176

غزہ کی جنگ کے آغاز سے چند ہی دن پہلے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ امریکا فلسطین پر فوجی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ محمود عباس کے اس بیان کے چند ہی دن بعد حماس نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا۔ جب محمود عباس یہ بات کر رہے تھے تو اس وقت یہ بات پوری طرح کھل نہ سکی تھی مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی روایتی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے امریکا کے پوشیدہ عزائم کا کھل کر اظہار کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی منصوبوں کو عیاں کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی تعمیر نو تک اس کے باشندوں کو اُردن اور مصرسمیت کئی دوسرے ممالک میں آباد کرنا چاہیے جہاں وہ زیادہ آرام سے پرسکون زندگی گزار سکیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے عرب ملکوں پر دبائو بڑھانے کا ایک سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ اُردن کے فرماں رواں شاہ عبداللہ وائٹ ہائوس طلب کر لیے گئے ہیں۔ مصر کے حکمران عبدالفتح السیسی کے ساتھ بھی بات چیت شروع کر دی گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیل کے ٹی وی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سعودی عرب کے پاس کافی زمین ہے وہ بھی فلسطینیوں کا اپنے ہاں آباد کر سکتا ہے۔ جس کے جواب میں سعودی عرب کی بااثر شوریٰ کونسل کے رکن یوسف بن طراد السعدون نے کہا ہے کہ امریکی صدر کو چاہیے وہ اسرائیلیوں کو الاسکا میں آباد کریں۔ اور پھر گرین لینڈ پر قبضہ کرکے انہیں وہاں منتقل کریں۔ انہوں نے ٹرمپ کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا امریکا کی خارجہ پالیسی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور نسل کشی کو جائز ٹھیرا رہی ہے لیکن یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص جانتا ہے کہ غزہ کو خالی کرانے کا منصوبہ صہیونیوں نے بنایا ہے اور منظور کیا ہے جس کے بعد اسے وائٹ ہائوس کے حوالے کیا گیا ہے۔ سعودی شوریٰ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے جس کے ارکان کی نامزدگی بادشاہ کرتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے ریمارکس اس وقت سامنے آئے تھے جب سعودی عرب کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات اس وقت بحال ہوں گے جب فلسطینی ریاست کے لیے واضح راستہ اپنایا جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کی وزرات خارجہ کی طرف سے اس تجویز کو نسل پرستانہ اور امن دشمنی قرار دیا گیا ہے۔ تنظیم آزادیٔ فلسطین کے سیکرٹری جنرل حسین الشیخ نے نیتن یاہو کے ریمارکس کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ فلسطینی ریاست فلسطین کی سرزمین پر بنے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد مشرق وسطیٰ میں عارضی جنگ بندی سے پیدا ہونے والی دائمی امن کی موہوم امید ایک بار پھر ٹوٹنے لگی ہے۔ حماس نے اسرائیل کی طرف سے ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے بعد قیدیوں کی رہائی روک دی ہے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینیوں کو کھلی دھمکیاں دینے کا انداز اپنالیا ہے۔ ٹرمپ مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں اور مستقبل کے غزہ میں حماس کاکوئی کردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے جنگ بندی کا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ حماس نے اس الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادی بادشاہوں اور فوجی حکمرانوں کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل کرتا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا پہلا مقصد اسرائیل کا تحفظ اور سلامتی رہا ہے۔

امریکا نے عرب دنیا کو ہمیشہ اسرائیل کی عینک سے دیکھا۔ یہ ایک ایسا فریضہ تھا جو ڈوبتی ہوئی عالمی طاقت برطانیہ نے امریکا کو سونپا تھا اور امریکا نے برطانیہ کے جانشین کے طور پر یہ ذمے داری پوری دیانت داری سے ادا کی۔ عرب دنیا میں جمہوریت کا راستہ روکنا، آمریتوں کو مضبوط کرنا کبھی کسی تھکے ہارے حکمران کا تختہ اُلٹنا اور تازہ دم شخص کو آگے لانا جہاں اسرائیل کی مخالفت کا چراغ جلتا ہوا محسوس ہوا اسے حیلوں بہانوں سے بجھا دینا غرض یہ کہ امریکا نے عرب دنیا کی اتھل پتھل کا ہر قدم اسی زاویے کے تحت اُٹھایا۔ عرب رائے عامہ میں اس پالیسی کا ردعمل بھی ہوتا رہا مگر نائن الیون نے امریکا کو عرب دنیا پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور عرب رائے عامہ کے جذبات کو کچلنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا۔ اب امریکا از خود مشرق وسطیٰ میں آنا چاہتا ہے تو یہ بھی اسرائیل کے گرد قبروں کا ایک حصار بنانے کی پالیسی ہے۔ اسرائیل کی طاقت اور توسیع پسندی کا الائو جلتا رہے اور اس کے گرد کمزور ناتواں اور نحیف عرب ممالک اس الائو سے ہاتھ تاپتے رہیں۔ حماس حزب اللہ اور حوثی سب اس حصار کی ناکامی اور شکست وریخت کا نام تھا اسی لیے امریکا اور اسرائیل نے اس رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ میں ڈیرہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکا مشرق وسطیٰ میں براہ راست آتا ہے تو یہ اس کے لیے افغانستان میں داخلے کی طرح کا فیصلہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران، چین اور روس بہرطور اس خطے میں امریکا کی موجودگی نہیں چاہتے۔ تینوں ملکوں کے حکمرانوں کی ایک معنی خیز تصویر ڈیڑھ سال قبل سامنے آئی تھی جس میں مشرق وسطیٰ کے ہی ایک دورے میں تینوں حکمران دوربین سے خلا میں دیکھتے ہوئے نظرآرہے تھے یوں لگ رہا تھا کہ انہیں کسی کے خلا سے زمین پر اُترنے کا انتظار اور تلاش ہو۔ اس تصویر میں امریکا کے لیے کوئی پیغام ہو سکتا ہے۔