پاکستان کی عدالتی تاریخ کوئی مثالی تاریخ نہیں بلکہ اسے نظریہ ضرورت کی عدلیہ کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے۔ عدالت نے بھی آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ طاقتور طبقات کے سیاسی مفادات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہماری عدالتوں یا انصاف پر مبنی نظام کی درجہ بندی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح جب بھی عدالت نے اپنی مزاحمت دکھانے کی کوشش کی تو حکمران طبقات ہوں یا اسٹیبلشمنٹ ان دونوں نے اس عدالتی مزاحمت کو ابتدا ہی میں یا تو کمزور کر دیا یا اسے کچل کر رکھ دیا۔ لیکن آج پاکستان کا عدالتی بحران ایک سنگین نوعیت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ عدلیہ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں بھی عدالت عظمیٰ ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کے ججوں نے باقاعدہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خطوط لکھے اور کہا کہ ہمیں عدالتی دباؤ کا سامنا ہے یا مختلف ایجنسیاں ہم پر دباؤ ڈال کر آزادانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے سے روک رہی ہے۔ کچھ ججوں نے تو الزام لگایا کہ ان کے گھر والوں کو دھمکیاں اور حراساں بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان ججوں کی کوئی بات نہیں سنی گئی اور چیف جسٹس سمیت کسی نے ان کی داد رسی نہیں کی۔ حالیہ دنوں میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے طلب کرنے پر عدالت عظمیٰ کے مختلف ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا کہ 26 ترمیم کے فیصلے تک اس اجلاس کو موخر کردیا جائے۔ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججوں کی سنیارٹی کو خراب نہ کیا جائے اور یہ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ بلوچستان سندھ اور پنجاب سے ججوں کو لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججوں کی سینیارٹی کو خراب کرکے وہاں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چیف جسٹس ہائی کورٹ کے تقرر کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں یا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان دونوں نے ان تمام ججوں کے خطوط یا ان کے تحفظات پر کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا اور وہی فیصلہ کیا گیا جو حکمران طبقہ چاہتا تھا یعنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ایسے ججوں کے تقرر کو یقینی بنایا گیا جس سے حکومت کے معاملات میں آسانی پیدا ہو سکے۔ کیونکہ حکومت کو ڈر تھا کہ عدالت عظمیٰ سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایسے جج موجود ہیں جو حکومت کے لیے آگے جا کر خطرہ بن سکتے ہیں۔ حکومت پہلے ہی پی ٹی آئی کے خوف کا شکار ہے اور سمجھتی ہے کہ عدالتی نظام میں پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی کا پہلو زیادہ ہے اور ان کو آنے والے دنوں میں عدالتی نظام میں زیادہ ریلیف مل سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کی کوشش تھی کہ وہ جج جو پی ٹی آئی کے حامی ہیں یا حکومت کے مخالف ہیں اس میں ایک لکیر واضح کھینچی جائے اور ایسے ججوں کا تقرر یقینی بنایا جائے جو حکومت کی حمایت میں پیش پیش ہوں۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے اس تاثر کو بھی میڈیا میں عام کیا کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں میں ایک بڑا گروپ ایسا ہے جو آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت میں جب بھی عدالت سے کوئی فیصلہ ان کی حمایت میں آتا تو اسے آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ عمران خان کی حمایت سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ مسلم لیگ ن نے تو ہمیشہ سے عدالت پر الزام لگایا کہ موجودہ عدالت کا لاڈلا عمران خان ہے اور عمران خان کو عدالتی پروٹوکول کی وجہ سے زیادہ پزیرائی حاصل ہے۔ حکومت کو جہاں عمران خان سے خطرہ ہے یا اس کی مقبولیت کو وہ اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں وہیں ان کو یہ ڈر بھی ہے کہ موجودہ عدلیہ خود ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے عدلیہ کو کنٹرول کرنا یا مرضی کے ججوں کا تقرر کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ حکومت نے اس کھیل میں بار ایسوسی ایشن کو بھی تقسیم کر دیا ہے وکلا تنظیموں کی اس تقسیم نے ان کی جانب سے بھی ایک بڑی مزاحمت کے امکانات کو محدود کر دیا ہے۔ 26 ویں ترمیم کی منظوری نے پہلے ہی عدالتی نظام کو خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ بہت سے قانونی ماہرین کے بقول 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ہمارا عدالتی نظام کافی حد تک تقسیم ہو گیا ہے اور اس تقسیم میں عدالتی نظام کو موثر بنانے کے بجائے اس میں کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا ایک بڑا دھڑا اس بات کا حامی ہے کہ 26 ویں ترمیم پر فل کورٹ اجلاس بلایا جائے لیکن موجودہ چیف جسٹس فل کورٹ بنانے کے حق میں نظر نہیں آتے اور اس کی ایک وجہ بڑی واضح ہے کہ اگر فل کورٹ بنتا ہے تو اس میں آنے والے فیصلے سے حکومت کو کافی سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کسی بھی طور پر حکومت کو قبول نہیں ہوگا۔ حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی بھی طرح سے 26 ویں ترمیم پر فل کورٹ نہ بن سکے اور اس پر ان کی نظریں چیف جسٹس آف پاکستان پر ہے کہ وہی حکومت کو اس کھیل میں بڑی سہولت کاری دیں گے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت عظمیٰ کے دو سینئر ججوں کے خلاف حکومت ریفرنس لانے پر غور کر رہی ہے۔ یقینی طور پر یہ دو جج منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف جسٹس محسن اختر کیانی کے بقول عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں۔ اس پر قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار صادق کافی برہم نظر آئے اور رولنگ دی اور کہا کہ جسٹس محسن کیانی کا یہ بیان پارلیمنٹ پر حملہ ہے اور ہم پارلیمنٹ کی سلامتی کا تحفظ کریں گے۔ یہ ساری صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ حکومت اپنے اختیارات اور طاقت کو استعمال کر کے عدلیہ کو اپنے ماتحت یا کنٹرول کرنے کا جو ایجنڈا رکھتی ہے اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کھیل میں جو بھی جج چاہے وہ عدالت عظمیٰ میں ہو یا ہائی کورٹ میں اگر حکومتی ایجنڈے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو حکومت اس کو دیوار سے لگا کر اپنے عزائم کو مکمل کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ اس وقت تو حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے جسٹس سرفراز ڈوگر کی راہ ہموار کی جائے اور اس تقرر پر وکلا تنظیمیں اور ججوں کو تحفظات ہیں مگر اس پر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ کیونکہ اس وقت ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ شخصی حکمرانی کا غلبہ ہے اور اس وقت حکومت کو آئین اور قانون کے تابع کرنا ہی اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔