آئینی لحاظ سے پاکستان کی ریاست اسلامی جمہوریہ ہے۔ آئین ہمیں تسلیم ہے، سیاسی لحاظ سے اس کا احترام بھی ہر پاکسانی شہری پر لازم ہے۔ ریاست سے وفاداری ہر شہری پر لازم قرار دی گئی ہے یہ آئین کے آرٹیکل5 کا تقاضا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف عام شہری تک محدود ہے؟ آئین کا احترام کرنا ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے لیے لازم کیوں نہیں سمجھا جاتا یا ان لوگوں نے خود کو آئین سے بالاتر کیوں سمجھا؟ تاریخ بھی خاموش ہے اور مورخ بھی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر جمہوریت کی گلیوں میں بنجارہ بن کر گھوم رہے ہیں۔ چند روز حکومت نے آٹھ فروری کو یوم تعمیر و ترقی منایا گزشتہ سال آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات ہوئے اور پوری قوم فارم پینتالیس اور فارم سینتالیس میں تقسیم ہوکر رہ گئی، اکثریت کے پاس فارم پینتالیس ہیں اور اقلیت کے پاس فارم سینتالیس ہیں مگر وہ اقتدار میں ہیں۔ جمہوریت تو کہتی ہے کہ اکثریت کا فیصلہ مانا جائے گا اور وہی حق حکمرانی بھی کریں گے۔ اقبال نے بھی کچھ کہا تھا، جمہوریت میں گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا، حالیہ اہل اقتدار تو کہاں گنے گئے ہیں اور کہاں تولے گئے ہیں عوام یہ سب کچھ جاننے کے خواہش مند تو ہیں مگر اسے اس راستے کی جانب جانے کی اجازت نہیں ہے کہ یہ شاہراہ عام نہیں ہے۔ آگے راستہ بند ہے، کا بورڈ لگا ہوا ہے۔
بہر حال آٹھ فروری کی مناسبت سے حکومت نے تو یوم تعمیر و ترقی منالیا، اور اس روز کی مناسبت سے قوم کے اس حصے نے جسے انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے یوم سیاہ منایا، اور سڑکوں پر احتجاج اور مظاہرے کرکے اور ریلیاں نکال کر اہل اقتدار سے سوال پوچھا کہ وہ کس بنیاد پر حق حکمرانی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اہل اقتدار کے کسی بھی ایک شخص کے پاس بھی اس سوال کا مناسب، قانونی اور آئینی جواب ہو تو بتائے؟ کہ جمہوریت دوسرے معنوں میں اکثریت جواب کی منتظر ہے۔ قوم تو اس سوال کا بھی جواب مانگ رہی ہے کہ کون ہے جسے 2018 کے انتخابات میں آر ٹی ایس بٹھا کر اسلام آباد کے تخت پر بٹھایا گیا تھا، اس کا نام تو بتائیے؟ وہ کون ہے جس نے قوم کے سامنے بزدار کھڑا کیا اور گوگی متعارف کرائی اور کون ہے جسے 2024 کے انتخابات میں فارم سینتالیس کی بنیاد پر حکومت ملی، جو ہر کام کا کریڈٹ جمہوریت سے چھین کر اپنے سرپرستوں کو دیے جارہا ہے، آخر ایسے لوگوں میں کیا خوبی ہے جو جمہوریت پر یقین رکھنے والی پاکستانی قوم کے فیصلوں میں نہیں ہے۔
ہر حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ آئین کی پابند ہے، دعویٰ بھی کرتی رہتی ہے، آئین کیا کہتا ہے؟ آئین کا آرٹیکل 5 ہی کافی ہے، کہ ہر شہری ریاست کا وفادار ہوگا، ہماری کتنی حکومتیں گزری ہیں کہ جنہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کیے اور ان معاہدوں کو قوم کے سامنے رکھا، کوئی ایک حکومت، کسی ایک وزیر اعظم کا نام ہی بتا دیں، شہباز حکومت نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدے کی ایک شق بھی قوم کے سامنے نہیں رکھی گئی، تو کیا ریاست کے ساتھ آئین کے آرٹیکل پانچ کے مطابق وفاداری تصور کی جاسکتی ہے؟ یہ ایک سوال ہے محض سادہ سا سوال، کیا اس کا جواب قوم کو مل پائے گا؟
ان دنوں آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان میں ہے، اس کی کیا مصروفیات ہیں؟ پارلیمنٹ بھی اس سے آگاہ نہیں ہے، قوم تو بہت دور کی بات ہے، اس کے باوجود ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ایک جمہوری ملک ہیں جمہوریت تو کہتی ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے، اس عوام کو رات بھر اس بات کا علم ہی ہوتا کہ انتخابات کے نتائج کیا ہیں اور کیا حکومت اسی نتیجے کے مطابق بن جائے گی، رات کو نتیجہ کچھ اور ہوتا اور دن میں نتیجہ کچھ اور نکلتا، رات کو بہت سے لوگوں کی مٹھائیاں ضائع ہوجاتی ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے اور کیسی حکومت، جمہوریت یہی ہے کہ جس کو اقتدار مل جائے جمہوریت کا ’’پھل‘‘ بھی اسی کو ملتا ہے، باقیوں کے کھاتے میں دھرنے، مظاہرے، احتجاج رہ جاتے ہیں، یہ کیسا ملک ہے، ایسا ملک دنیا کے کسی خطے میں نہیں ملے گا، بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں، جو پارلیمنٹ کے اندر بھی پھر بھی نظام کو تسلیم نہیں کر رہی ہیں، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کے ہر امیدوار کو کامیاب ہونا چاہیے، ان کا کوئی ٹکٹ ہولڈر شکست نہیں کھا سکتا، یہ کیسے ممکن ہے؟ کہ ایسا ہی ہو مگر سیاسی جماعتوں کی اکثریت اس بات پر بضد رہتی ہے کہ اسے جان بوجھ کر شکست دی گئی، آئین اور ریاست دونوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھیں، اگر کوئی جمہوری ریاست ہو تو وہ بھی اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے مگر یہاں تو حکومت قبضہ مافیا بنی ہوئی ہیں، لاہور سے شروع ہوجائیں کراچی جا پہنچیں، جگہ جگہ ایسی بے شمار ہزاروں کہانیاں مل جائیں گی، اسی کہانیوں کی پسلی سے ملک میں قبضہ مافیا اور بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکون پیدا ہوئے ہیں، اس کا سد باب کون کرے گا؟ اب یہ بھی سن لیجیے، جس طرح ملک میں فارم سینتالیس کی حکومت ہے بالکل اسی طرح سیاسی جماعتوں میں بھی وہی لوگ اگلی صفوں پر ہیں جن کے ہاتھوں میں اپنی جماعت کی قیادت کی جانب سے تھمائے ہوئے فارم سینتالیس ہیں، آئیے ایک ایک سیاسی جماعت کا تجزیہ کرتے جائیں اور اگلی صفوں میں بیٹھے لوگوں کے چہرے دیکھتے چلے جائیں، ملک ہو یا سیاسی جماعتیں ہوں یا نجی، سرکاری ادارے، حتی کہ صحافتی ادارے بھی، بس ہر جگہ فارم سینتالیس کی ہی کہانیاں مل رہی ہیں، بس یہی سمجھ لیجیے جمہوریت ہے اور نہ جمہوریت میں کہیں عوام ہیں۔