حکومت کا مالی ٹرانزیکشنز کی نگرانی بڑھانے کا فیصلہ

120

اسلام آباد:حکومت نے ایسی مالی ٹرانزیکشنز کی نگرانی مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ظاہر کی گئی آمدن سے زیادہ ہوں گی۔ ممکنہ اقدام کا مقصد  ٹیکس دہندگان کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر بینکوں کے ساتھ مل کر ایک نئی حکمت عملی اپنانے جا رہا ہے تاکہ آمدن اور مالیاتی ٹرن اوور کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھی جا سکے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ظاہر کی گئی آمدن سے زیادہ مالیت کی ٹرانزیکشنز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے بینکوں کے ساتھ ڈیٹا شیئر کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے بینکوں کو ٹیکس دہندگان کے شناختی کارڈ کی بنیاد پر ان کی آمدن اور ٹرانزیکشنز کا ڈیٹا فراہم کرنے کی ہدایت دی جائے گی اور اگر بینک کی جانب سے رپورٹ ہونے والی ٹرانزیکشن کا حجم ایف بی آر کے ڈیٹا سے مطابقت نہیں رکھے گا تو اسے ایف بی آر کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔

چیئرمین ایف بی آر نے مزید کہا کہ بینکوں سے کہا جائے گا کہ وہ ٹرانزیکشنز روکنے کے بجائے ان کی رپورٹ ایف بی آر کو فراہم کریں۔ اس طرح مالیاتی ٹرانزیکشنز میں شفافیت کو بڑھایا جائے گا اور غیر قانونی یا مشتبہ سرگرمیوں کا بروقت پتا چلایا جا سکے گا۔

اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما بلال اظہر کیانی نے جائیداد خریداری کے حوالے سے اہم وضاحتیں پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ نان فائلرز کے لیے قانون میں یہ تبدیلی رکھی گئی ہے کہ وہ پہلی بار مکان خریدنے کے قابل ہوں گے بشرطیکہ انہوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں آمدن ظاہر کی ہو۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کو اپنے والدین اور بچوں کے لیے جائیداد خریدنے کی اجازت ہوگی بشرطیکہ وہ نقد رقم یا مساوی اثاثوں کی بنیاد پر خریداری کریں۔

کمیٹی کے چیئرمین سید نوید قمر نے اس بات کا سوال اٹھایا کہ اثاثوں کی تعریف میں اس تبدیلی کو کیوں شامل کیا گیا؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کا مؤقف تھا کہ شفافیت بڑھانے کے لیے اثاثوں کی اس نئی تعریف کو شامل کیا جائے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات حکومت کی جانب سے ٹیکس دہندگان کی سرگرمیوں میں شفافیت اور کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ مالیاتی اداروں میں غیر قانونی ٹرانزیکشنز کا قلع قمع کیا جا سکے۔