اسلام آباد ہائیکورٹ: پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو نوٹس

121
Transfer of 3 judges from Sindh, Balochistan and Lahore

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ایف یو جے اور اینکرز ایسوسی ایشن کی پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور اینکرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پییکا ایکٹ کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی، سماعت کے دوران صحافتی تنظیموں کے عہدیدار اور وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

پی ایف یو جے کی جانب سے وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ پیکا ایکٹ اتنی جلدی میں منظور کیا گیا کہ اس کی شقوں میں واضح غلطیاں موجود ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اس قانون میں درخواست دہندہ کی دو مختلف تعریفیں دی گئی ہیں جو آپس میں متضاد ہیں، جس سے اس کی غیر معقولیت ظاہر ہوتی ہے۔

عمران شفیق نے یہ بھی کہا کہ پیکا کے تحت تشکیل دی گئی کمپلینٹ اتھارٹی دراصل وہی ادارہ ہے جو پہلے ہی پیمرا قانون میں موجود ہے۔

صدر ہائی کورٹ بار، ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی ہے، جس میں اظہار رائے کی آزادی پر غیر ضروری قدغن لگائی گئی ہے۔

جسٹس انعام امین منہاس نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ آپ کا موقف ہے کہ فیک نیوز کی اشاعت روکنی چاہیے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز ایک سنگین مسئلہ ضرور ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا توازن بھی ضروری ہے۔

ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد نے مزید کہا کہ اس قانون کے تحت فیصلوں کے خلاف اپیل صرف سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکے گی، جبکہ اسٹیک ہولڈرز سے کسی بھی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ صحافی کو اپنے ذرائع ظاہر کرنے کی پابندی عائد کرنا اس پیشے کی آزادی کو محدود کرتا ہے، کیونکہ صحافی اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں، اور اگر یہ ذرائع افشا نہ ہو سکیں تو پھر صرف موسم کی پیش گوئی کرنے کا ہی باقی رہ جائے گا۔

درخواست گزار وکلاء نے متعدد بار عدالت سے استدعا کی کہ اس قانون پر فوری طور پر عمل درآمد روکا جائے، تاہم جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ اگر کوئی نیا پہلو سامنے آئے تو ہم اس پر غور کر سکتے ہیں، اور اگر ضروری ہو تو متفرق درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

عدالت نے اس کیس میں مزید معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کو ملتوی کر دیا۔