آئیے جاگ جاتے ہیں

180

ایک شخص رات کی تاریکی میں قبل از فجر دریا کنارے بیٹھا تھا کہ کنکریوں سے معمور اک زنبیل اس کے ہاتھ لگی، اس نے ہاتھ بڑھا کر زنبیل سے کنکری لی اور دریا میں پانی کی طرف اچھال دی، جسکے دریا میں گرنے سے پانی سے پیدا ہونے والی آواز اسے سرور آگیں محسوس ہوئی، تو دوبارہ اک اور کنکری پانی کی طرف اچھالی، پھر یونہی اس صدائے آب سے محظوظ ہونے واسطے یکے بعد دیگرے کنکریاں پھینکتا رہا، یہاں تک کہ آفتاب کی شعائیں رات کی تاریکی کو چیرتی ہوئی نمودار ہونے لگیں، اور پاس پڑی زنبیل سے سیاہی چھٹنے لگی، جس میں اب صرف ایک کنکری باقی تھی، اتنے میں بیاضِ شمس نے سوادِ لیل پر غلبہ پا کر چار سو کو منور کیا، اس آدمی نے وہ باقی بچی کنکری کو بغور دیکھا، تو معلوم ہوا کہ وہ کنکری نہیں، بلکہ قیمتی نگینہ ہے، اب اس پر یہ عیاں ہوا کہ جنہیں وہ پتھر سمجھ کر دریا میں پھینکے جا رہا تھا حقیقت میں وہ پتھر نہیں، بلکہ جواہر تھے۔

پھر مارے ندامت کے، کف افسوس ملتے ہوئے بڑبڑانے لگا : ہائے میری کم عقلی، پتھر سمجھ کر نگینوں کو پھینکتا رہا، محض اک آواز سے محظوظ ہونے واسطے، اگر مجھے انکی قیمت کا اندازہ ہوتا تو یہ غلطی کبھی نہ کرتا۔
جانتے ہیں کہ وہ شخص کون ہے؟
وہ شخص میں ہوں، آپ ہیں، ہم سب ہیں؛

جواہر سے بھری وہ زنبیل” زندگی و عمر ہے، جسکی ہر آن و گھڑی ہم بے مقصد، بلا فائدہ ضائع کرتے چلے جا رہے ہیں۔
صدائے آب” (جس میں وہ شخص مدہوش ہوا تھا وہ) دنیا کا فانی مال و متاع اور خواہشات ہیں۔
رات کی تاریکی” غفلت ہے

سورج کا ظہور” وقت أجل حقیقت کا عیاں ہونا ہے، جس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
تو چلیے : ابھی سے بیدار ہو جاتے ہیں، جواہر جیسے ان قیمتی لمحات کو یوں بے فائدہ ضائع نہیں کرتے، وگرنہ اس وقت ندامت ہو گی، جب یہ پشیمانی کچھ فائدہ نہ دے گی۔
(اک عربی تحریر کا اُردو ترجمہ)