سوجائو ورنہ ’’گبر‘‘ آجائے گا

127

میں: رات خواب میں دیکھا کہ قائداعظم کے مزار پر ایک ہجوم جمع ہے، ہر شخص قائد سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے دیوانہ وار لپک رہا ہے اور ان کے پرجوش نعرے ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا معاملہ ہے، کیا ۱۴ اگست یا ۲۵ دسمبر کا دن ہے جو اتنے لوگ ایک ساتھ آگئے ہیں۔ بڑی مشکل سے جگہ بنا کر قبر کے احاطے کے قریب پہنچے تو دیکھا ان کی قبر سے لگ کر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’قائد اب آپ سکون سے سوجائیں، کیوں کہ اب ہم بیدار ہوچکے ہیں‘‘۔ ہڑبڑا کر آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہم ہاتھ پائوں ہلا ہلا کر نعرے لگا رہے ہیں ’’ہوگئے ہم بیدار، ہوگئے ہم بیدار‘‘۔ غور کیا تو خود کو بستر سے نیچے گرا ہوا پایا اور بیگم بچے ہمارے گرِد پریشان کھڑے ہیں۔ چھوٹے بیٹے نے کہا پاپا ابھی تو ہر طرف گھپ اندھیرا ہے، فی الحال صبح ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ویسے بھی ساری قوم کسی ضروری کام سے سورہی ہے، لہٰذا آپ بھی سوجائیں اور ہمیں بھی سونے دیں۔ تب ہمارا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور بیوی بچوںکی نیند خراب کرنے پر اُن سے معذرت کرکے دوبارہ سوگئے۔

وہ: شکرکرو کہ تمہاری اور قوم کی بیداری کا یہ عمل محض خواب ہی تک محدود رہا اور موقع پر موجود تمہارے گھر والوں نے تمہیں کسی مشکل صورت حال سے بچا لیا۔ ورنہ آج تک نیند سے بیدار ہوکر بستر سے اٹھنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوئی، زیادہ تر تو نیند ہی کو اپنی عافیت سمجھتے ہوئے آرام سے ایسے سورہے ہیں کہ اب اسرافیل ہی اٹھائیں تو اٹھیں گے اور رہی بات حالت ِ نیند میں امت اور قوم کی بیداری کا خواب دیکھتے ہوئے بستر سے گرنے والی پرجوش اور بے چین روحوں کی تو ان کے لیے بس ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے، جیسے سو رہے تھے، سوتے رہو، ورنہ ’’گبر‘‘ آجائے گا۔

میں: مجھے ایک بات اکثر پریشان کرتی ہے کہ ہر ایسے موقع پر جب مظلوم اس دنیا میں کہیں بھی ذرا کروٹ لیتے ہیں یا اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو بیچ میں اچانک یہ گبر کیوں آجاتا ہے؟

وہ: اصل میں گبر ظلم کا استعارہ ہے، جدید ہتھیاروں سے لیس گبر کے دربارِ عالیہ میں ہر ایک سجدہ ریز اور سرنگوں ہے، اس کے سامنے سب خاموش ہیں، وہ ہرقانون سے بالاتر ہے بلکہ وہ تو قانون کے رکھوالوں پر بھی جب چاہے اپنی مرضی کی کوئی بھی قدغن لگا دیتا ہے اور کس کی مجال ہے جو اس سے کوئی باز پرس کرسکے۔

میں: میرے خیال سے تمہارا اشارہ امریکا کے صدر ٹرمپ کی طرف ہے؟

وہ: ہاں کہہ سکتے ہو لیکن یہ ٹرمپ بیچارہ تو بس ایک نام ہے، جو ایک مقررہ مدت کے لیے اعزازی فن کار کی حیثیت سے گبر کا کردار ادا کررہا ہے، ورنہ اصل میں تو یہ کردار امریکی ریاست دنیا میں ہر جگہ برسوں سے بخوبی نبھا رہی ہے۔

میں: لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ نے جو حالیہ بیان جاری کیا ہے کہ امریکا اپنی کسی فوجی قوت کے بغیر غزہ کے بے گھر اور مجبور لوگوں کے لیے اپنی جیب ِ خاص سے یہ کام کرے گا، جس کی وضاحت بعد ازاں امریکی انتظامیہ کے ترجمانوں نے بھی کی ہے کہ غزہ کے لوگوں کو عارضی طور پر بے دخل کیا جائے گا، یعنی تعمیر نو کے بعد وہ اپنے نئے اور پہلے سے بہتر گھروں میں واپس سکونت پذیر ہوجائیں گے۔ مجھے تو اس بیان میں گبر جیسی کوئی خصلت نظر نہیں آرہی؟

وہ: اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔ غزہ کے مظلوم ولاچار انسانوں سے اتنی ہمدردی، اتنی محبت۔ اس وقت کہاں تھا ہمدردی کا یہ ڈھونگ جب امریکا جدید ترین اسلحہ، گولہ بارود اور میزائل فوجی طیاروں اور بحری جہازوں کے ذریعے ا پنی ناجائز اولاد اسرائیل کو روزانہ کی بنیاد پر پہنچا رہا تھا۔ اس وقت کہاں تھی یہ محبت جب امریکا نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ہر قراردادِ مذمت یہ کہہ کر ویٹو کردی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، اور اپنے اس دفاع میں اسرائیل نے کم وبیش بیس ہزار دودھ پیتے معصوم بچوں کو بھی موت کی نیند سلادیا جو اس پر بندوقیں تانے کھڑے تھے۔ سابق امریکی صدر کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کسی منافق کی طرح بغل میں چھری دبائے منہ میں رام رام کی مالا جپتے ہوئے جنگ بندی کی نام نہاد کوششوں کے لیے اسرائیل، مصر اور قطر وغیرہ کے دورے ایسے کررہے تھے کہ جیسے دنیا میں ان سے زیادہ غزہ کا کوئی غمخوار نہیں ہے۔

میں: میں تم سے سو فی صد متفق ہوں کہ غزہ کے اس انسانی المیے کااصل ذمے دار امریکا ہے لیکن تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کا یہ اعلان سعودی عرب یا قطر جیسے ملکوں کو کرنا چاہیے تھا؟ ساتھ ہی پاکستان، ایران، ترکی اور ہر مسلم ملک اپنی استطاعت کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اس میں شامل ہوجاتا اور کہتا کہ جو کام چالیس پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے میں مکمل ہوگا اسے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے صرف پانچ سال کے اندر مکمل کرکے دکھائیں گے۔ ابھی چند سال قبل قطر میں اربوں ڈالر کے اخراجات سے فٹ بال ورلڈ کپ منعقد ہوا تھا اور ۲۰۳۴ء یعنی تقریباً دس سال بعد سعودی عرب میں کھیلوں کا ایسا ہی میلہ لگایا جائے گا، سعودی شیخ یہ دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ہم قطر سے دگنی رقم خرچ کرکے دکھائیں گے۔ اگر سعودی عرب آج اپنے ملک میں فٹ بال ورلڈکپ کے انعقاد سے دستبرداری کا اعلان کردے اور اگلے دس سال میں اس کھیل تماشے اور لہوو لعب پر خرچ کی جانے والی تمام رقم غزہ وفلسطین کے مکینوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیے بغیر خطے کی ازسرِنو تعمیر اور آبادکاری کے لیے مختص کردے

تو گبر اور اس کے تمام ہالی موالی اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں گے۔ اور کہیں گے کہ انہیں نیند سے کس نے جگا دیا، یہ سب تو بڑے مزے سے سورہے تھے، کسی نے ان کے کانوں میں سورِ اسرافیل تو نہیں پھونک دی۔ ذرا دیکھو بھائی ان مسلمانوں کے آرام میں کس نے خلل ڈال دیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ گبر کا خوف ان کے دلوں سے ختم ہوگیا ہے۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ آئو ہم سب گبر کا حق ِ نمک ادا کریں اور بآوازِ بلند کہیں۔ سو جائو، ورنہ ’’ گبر‘‘ آجائے گا۔