کشمیر!! اِک نالہ ٔ خاموش

118

کشمیر کی تحریک مزاحمت کا ایک دور اور فیز نائن الیون تک چلا۔ کشمیر کے لوگوں نے اس عرصے میں بہت جرأت اور بہادری کے ساتھ غلامی کا جوا اپنی گردن سے اُتار پھینکنے کی کوشش کی۔ قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ایک تہذیب یافتہ اور قدیم اور مضبوط ثقافت کی حامل کشمیری قوم جب اُٹھی تو ایسے اُٹھی کہ دنیا حیران ہو گئی۔ اس کے نوجوانوں نے چھتیس گھنٹے تک بھوکا پیاسا رہ کر محصور حالت میں بھی بھارتی فوج کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا اپنے بارے میں قصے کہانیوں اور محاوروں کو تبدیل کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دور سے پہلے وادی کشمیر کے ہجرت کرکے آنے والے کئی بزرگ جب اپنی نجی محفل سجاتے اور ان میں اکثر خود مذمتی کیا کرتے اور کوسنے لگتے کہ کشمیری خود ہی نہیں اُٹھتے تو پاکستان کیا کرے گا۔ یہ جو اس محفل میں ابھی ہم نے آزادکشمیر کا ترانہ ’’باغوں اور بہاروں والا جنت کے نظاروں والا‘‘ خاموشی اور احترام سے پڑھا کشمیریوں نے اس میں بھی ترمیم کرادی۔ حفیظ جالندھری کے لکھے گئے اس ترانے کا ایک بول تھا۔ تم بھی اُٹھو اہل وادی۔ جب کشمیری نوجوان ہزاروں کی تعداد میں آئے تو انہوں نے آزاد کشمیر ریڈیو کے سامنے مظاہرہ کیا اور کہا اب تو ہم اُٹھ گئے ہیں اب ہمیں یہ بول کیوں سنائے جاتے ہیں۔ اس احتجاج کے بعد ترانے کے بول میں یوں ترمیم کی گئی کہ تم بھی اُٹھو اہل وادی کی جگہ، جاگ اُٹھی ہے ساری وادی کردیا گیا۔ اس قدر بڑا انقلاب کشمیر کے لوگوں نے برپا کیا۔

نائن الیون ایک المیہ ثابت ہوا کشمیر کی تحریک مزاحمت کے لیے۔ اس واقعے میں نہ کوئی کشمیری شریک تھا نہ فریق تھا مگر ٹوئن ٹاورز کی بہت سی کرچیاں کشمیر کے وجود کو جا لگیں اور یہ زخم زخم ہوگیا۔ امریکا نے ہر مسلح جدوجہد کو دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کر دیا اور آئی ایم ایف، فیٹف اور اقوام متحدہ کے ذریعے پاکستان کی کلائی مروڑنے کا عمل شروع ہوگیا۔ کشمیر کے نامی گرامی مزاحمت کاروں کو گلوبل ٹیررسٹ قرار دیا جانے لگا اور کشمیر کی تحریک کے ساتھ جو ایک مقامی تحریک تھی عوامی تحریک تھی جینوئن تحریک تھی جو فرزندان زمین کی تحریک تھی کو بھی دہشت گردی بنا کر پیش کیا گیا۔ اس دبائو کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان نے اس تحریک کو لپیٹنے کا آغاز کیا۔ ایک پیس پروسیس شروع کرکے مزاحمت کو پیچھے دھکیلنے کا عمل شروع ہوا۔ اس کے باوجود کشمیریوں نے حالات سے سمجھوتا نہیں کیا۔ 2005 میں جب ایک سیمینار میں شرکت کے لیے سری نگر گیا تو اندازہ ہوا کہ کشمیر کا ہر پیرو جواں بھارت سے نفرت کرتا تھا۔ سید علی گیلانی کشمیرکے سب سے مقبول لیڈر بن کر اُبھرے تھے اور کشمیری ان کے نام اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار تھے۔ آج خوش گوار حیرت ہو رہی ہے کہ پی ٹی وی سید علی گیلانی کو مرد آہن بھی کہتا ہے اور ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے کے نعرے بھی سناتا ہے مگر اس وقت پی ٹی وی نے ان کے لیے آج کی بانی چیرمین نما ’’بزرگ راہنما‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔ سیدعلی گیلانی ملول تھے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کر رہے تھے اس وقت یہ افواہ چل رہی تھی کہ علی گیلانی مشرف حکومت کی پالیسیوں سے عاجز آکر سری نگر میں مشرف کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی کال دینے والے ہیں۔ بعد میں یہ افواہ غلط ثابت ہوئی مگر میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ محض افواہ نہیں تھی۔ نائن الیون سے شروع ہونے والا فیز پانچ اگست 2019 تک چلا۔

پانچ اگست کو بھارت نے فاول پلے کا فیصلہ کیا اور ہارنے والے کھلاڑی کی طرح وکٹیں لے کر بھاگ گیا اور اعلان کیا کہ اب مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے حل ہوگیا ہے۔ یہ ان کا دیرینہ خواب تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اس انداز سے حل کریں۔ حال ہی میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کشمیری صحافیوں کی تنظیم کے ایک اجلاس میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے دو دو بار مسئلہ کشمیر کا حل ناکام بنایا۔ ان کے مطابق بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ایک بار راجیو بے نظیر مفاہمت کو سیاچن پر اور دوسری بار من موہن مشرف مفاہمت کی صورت میں ناکام بنایا تو دو بار پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کارگل اور وکلا تحریک کے ذریعے اس حل کو ناکام بنایا۔ میری رائے میں مشاہد حسین جس بات کو مسئلہ کشمیر کا حل قراردے رہے ہیں وہ حل نہیں بلکہ کشمیر پیس ڈیل تھی محض ایک سمجھوتا۔ اس میں کوئی آئیڈیل بات نہیں تھی۔ آج کی سب سے بڑی زمینی حقیقت پانچ اگست کے بعد کا کشمیر ہے۔ جب کشمیر بھارت کے پاس ہے اور یکجہتی ہمارے پاس۔ ہمارے پاس حرف فریاد اور صدائے احتجاج کے سوا کچھ اور نہیں۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ وقت بدل بھی سکتا ہے۔ برہان وانی جب شہید ہوئے تو بھارت کے سیاحوں کی ایک کشمیری بچے کے ساتھ گفتگو وائرل ہوئی تھی۔ جس میں دو بھارتی سیاح راستے میں بیٹھے ایک چھے سال کے بچے سے گفتگو کرتے ہیں۔ اس بچے کا نام غالباً بلال تھا۔ سیاح پوچھتا ہے کہ بلال کشمیریوں کا کیا مسئلہ ہے۔ بچہ اعتماد اور کمال بے نیازی سے کہتا ہے کہ ہمیں آزادی چاہیے۔ سیاح چھیڑنے کے انداز میں کہتا ہے تم کیسے آزادی لو گے بھارت تو بہت بڑا ملک ہے۔ بچہ اعتماد کے ساتھ کہتا ہے ہم آزادی لیں گے چین ہمارے ساتھ ہے پاکستان بھی ہمارے ساتھ ہے۔ یہ کہتے ہوئے بچے کے لہجے میں بلا کا اعتماد ہوتا ہے۔ یہ بلال کا آپ پر اعتماد تھا۔ پانچ اگست 2019 کو آپ نے بطور ریاست خاموشی کی جو ردا اوڑھی اس سے بلال کا اعتماد پاکستان اور آزادکشمیر پر ٹوٹ گیا۔ آج جو سرگرمیاں ہم کررہے ہیں یہ اس وقت نہ کی گئیں۔ کشمیریوں کی خاموشی سمجھ میں آنے والی ہے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کی طرف دیکھنے کے عادی ہیں وہ دائیں بائیں دیکھتے رہے اور ہر طرف خاموشی دیکھ کر ان پر بھی سکتہ طاری ہوگیا انہیں احساس ہوا کہ وہ دکھ سہنے کے لیے تنہا ہیں اور اس دنیا میں ان کا کوئی مونس ہمدرد اور غم گسار نہیں۔ یوں عدم اعتماد کی ایک خلیج اب راہ میں حائل ہو چکی ہے۔ آج کیفیت یہ ہے کہ

پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد

کشمیری پاکستان سے الگ نہیں رہ سکتا مگر پاکستان اور آزادکشمیر کے اس رویے نے آج کے کشمیری کو مایوس کیا ہے۔ ہمیں سب سے پہلے بلال کا اعتماد بحال کرنا ہے اور اس سوال کا جواب بھی دینا ہے کہ پاکستان تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر خاموش کیوں رہا؟ اور یہ خاموشی اتنی طویل کیوں ہوئی۔ کوئی نہیں کہتا تھا کہ بندوقیں لے کر کنٹرول لائن کی طرف دوڑنا چاہیے تھا مگر یہ احتجاج اور فریاد اور آہ وفغان جو ہم آج کررہے ہیں اس کے زیادہ اونچی آواز میں کرنے کا وہی مناسب وقت تھا۔ اس اعتماد کی بحالی ایک نیا چیلنج ہے۔ یہ خاموشی ناراضی کی ایک وجہ ہے اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کے اہل حکم نے اس ملک کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جس ملک سے کشمیری یہ توقع لگائے تھے کہ پاکستان ایک معاشی طاقت بنے گا سیاسی طور پر مضبوط ہوگا اور ایک غازی آئے گا ایک محمد بن قاسم آئے گا اور ایک تصور یہ تھا کہ کوئی امان اللہ آئے اور ہمیں چھڑائے گا وہ ملک کشکول لیے زخم زخم ہے۔ اس حال میں کشمیری کو لگتا نہیں کہ پاکستان ان کی کوئی ٹھوس مددکر سکتا ہے۔ کشمیری کہتے ہیں آپ بھی ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں کہ بیرونی قوتوں کی مداخلت پر اپنے فیصلے کرنے اور بدلنے پر مجبور ہیں۔ ان دو باتوں کی روشنی میں اگر آپ کو کشمیر میں کام کرنا ہے تو آپ کو حالات کی اصلاح کرکے کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ اس میں امید کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کشمیری بھارت کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرے گا۔ کشمیری برباد ہوجائے گا مگر وہ بھارت کی غلامی کو دل سے قبول نہیں کرے گا۔ غزہ میں ہونے والی جنگ بندی کا انداز کشمیریوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ اسرائیل جس حماس کو کچل ڈالنا چاہتا تھا مگر تیرہ ماہ بعد جب جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو وہ حماس اور اسرائیل کی برابری کا رنگ لیے ہوئے تھا۔ آج کشمیری وہاں کھڑے ہیں جہاں فلسطین کے لوگ 1937 میں کھڑے تھے جب دنیا بھر کے یہودی سرمایہ دار اور ساہوکار اونے پونے داموں ان کی زمینیں اور باغات خرید رہے تھے۔ وہ کشمیری جو چھتیس گھنٹے تک سیکڑوں فوجیوں کا مقابلہ کرتا تھا اور جو اسی حالت میں اپنی ماں سے فون پر بات کرکے الوداعی سلام لیتا تھا اور ماں اسے ڈٹ جانے کی نصیحت کرتی تھی آج خاموش کیوں ہے؟ مجھے اس کا جواب شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام سے ملا۔ اس کیفیت کو علامہ نے نالہ ٔ خاموش یعنی خاموش فریاد(Silent cry) کا نام دیا ہے۔ یہ وہ نغمہ ہے کہ جب سوویت یونین منہدم ہو رہا تھا اور وسط ایشیا آزاد ہورہا تھا تو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند کے ایک مرکزی چوک میں ہزاروں لوگ کورس کی شکل میں گارہے تھے اور بی بی سی ریڈیو نے اپنے پروگرام کا آغاز ہی اسی نغمے اور انہی آوازوں سے کیا تھا۔ علامہ اقبال زبور عجم میں کہتے ہیں۔

خاور مانند غبار سرراہی است
یک نالۂ خاموش و اثر باختہ آہی است

ترجمہ۔ مشرق غبار ِ راہ کی طرح بے وقعت ہوگیا ہے۔ مشرق ایک خاموش فریاد بن چکا ہے۔
آج کے کشمیر کی خاموشی حالات سے سمجھوتا کرنے کی روش نہیں بلکہ اقبال کی زبان میں ’’خاموش فریاد‘‘ ہے اس خاموشی کی تہہ میں جذبات کا ایک طوفان مچل رہا ہے مگر اس طوفان کو راہ دینے اور دکھانے کے لیے پہلے پاکستان کے پالیسی سازوں کو خود کو بدلنا ہوگا۔ (پانچ فروری کو آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ)