فرمان ربیّ ہے ہم ظالموں کو آپس میں لڑا دیتے ہیں، آمنا و صدقنا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک ریاض پراپرٹی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ جس کے دربار میں ملکی محمود و ایاز حاضری ہی نہیں دیتے بلکہ خوب گنگا اشنان سیم و زر بھی 20 سال تک کرتے رہے اور کراتے رہے۔ اب اُس کو گردش دوراں نے لرزہ براندام کردیا ہے۔ حکومت کے کار پرداز جو دو عشروں سے حصہ دار تھے، اُس کی لوٹ کھسوٹ کا تماشا دیکھتے رہے، اب جب دیکھا کہ اس ایشیا کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کو بدہضمی ہوگئی اور تابعدار رہنے کے بجائے یہ کھٹی میٹھی ڈکار نکال رہا ہے تو یاد آیا کہ بین الاقوامی انسداد منی لانڈرنگ قوانین اور ویانا کنونشن کے چورن کو استعمال میں لا کر ملک ریاض کا نیب کے مطب میں علاج کیا جائے۔ جس کے کامیاب کردار نے اچھے بھلے سے لے کر پیٹ بھروں کو ایسی چاٹ اور لت لگائی کہ وہ اپنا سبق بھول گئے اور ملک کے اثاثوں کو بھی یاجوج ماجوج کی طرح چاٹنے میں لگ گئے۔ ملک ریاض بھی بڑا کایاں ہے وہ بھی دھمکا رہا ہے کہ اُس کی زنبیل میں بڑے راز ہیں، پردہ اٹھا تو راز کھل جائیں گے اور بہت معصوم چہرے مکروہ نظر آئیں گے۔ اب اعصابی لڑائی ملک کے تاجدار حکمراں اور بے تاج بادشاہ کے درمیان ہورہی ہے، کل کے دوست کٹی کھانے والے مجنوں بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو عشرے تک نیب و دیگر ادارے جو انسداد بدعنوانی کے ذمے دار تھے کیوں آنکھیں موندے خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے، کیا یہ اس کے جرم میں شریک اور سزاوار نہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک جسٹس صاحب جو نیک و نامور باپ کے فرزند ہیں انکوائری کے طفیل تحفہ میں بحریہ ٹائون میں شاندار بنگلے کے مالک بن گئے۔ یوں تو شمار کریں تو ہر اک نے جن میں قانون فروش، قلم فروش، ضمیر فروش نے حصہ بقدر جثہ پایا اور خاموشی کی صورت میں قیمت لی اور یوں ملک ریاض ایسے منہ چڑھے ہوئے کہ وہ اپنی خواہش کا وزیراعظم تک لانے میں کامیاب ٹھیرے۔ جرائم کی دنیا کے ڈان کا یہ اصول بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے کارندوں سے جرائم کراتے ہیں۔ مذموم مقاصد پورے کرتے ہیں پھر اُسے ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ شہری لسانی تنظیم ایم کیو ایم نے حلف یافتہ کارکن ان ہی کو بنایا جو قتل و غارت کا جاندار ریکارڈ رکھتے تھے اُن سے خوب جرائم کرائے اور پھر اُن کو ٹھکانے لگوادیا یا اُن کے حوالے کرکے جو سرکار میں اُن کے سرپرست تھے ان کے سینہ پر کارکردگی کا تمغہ سجانے کا سامان کردیا۔ یوں ہی اندرون سندھ میں بھی وڈیرے، پتھارے دار کرتے ہیں۔ ڈاکو پالتے ہیں اُن کو کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں اپنے سیاسی اثر رسوخ سے ان کے بچائو کا سامان کرتے ہیں۔ پھر جب دیکھتے ہیں کہ یہ اب وہ کام کا نہ رہا جو مطلوب تھا تو پولیس مقابلہ کے نام پر قانون کے مرگھٹ کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ جرائم کی دنیا کا طریقہ کار ہے۔ قانون کے آنکھ پر بندھی پٹی جب ہی کھلتی ہے جب پیا نہ چاہے یا اُس کی قربانی دے کر اپنی گلوخلاصی کی ضرورت سرپرست کو پڑے۔ سندھی زبان کی خوب کہاوت ہے کہ چور کو نہیں اس کی ماں کو مارو جو چور نہ جنے، مگر کون ایسا کرے جن کا تکیہ ہی چور کی ماں پر ہے۔
ملک ریاض جو مہرہ شطرنج تھا۔ اب زیر عتاب ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ وقتی جھٹکا ہے جھکانے کا؟ اور پھر وہی تاریخ دہرائی جائے گی جس کو سیاسی زبان میں این آر او کہتے ہیں۔ قانونی زبان نظریہ ضرورت بتاتی ہے، حکمرانوں کی ڈکشنری اُن کو ’’سدھر جائے گا‘‘ سے نوازتی ہے۔ اس لغت کی بدولت کچے سے لے کر پکے تک۔ اوپر سے لے کر نیچے تک مجرم بے قابو ہیں۔ کون ہے جو روکے ٹوکے کوئی کلاشنکوف سے لوٹ رہا ہے کوئی سرکار کے اختیارات سے جیب خالی کرا رہا ہے۔ کوئی حکمرانی کی بدولت چھوٹ کا حامل ہے، کوئی قلم کی مار سے گھربار سجا رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس طوفان بدتمیزی نے قانون، آئین کی آنکھیں موند دی ہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے، جرائم کا نظام دندنا رہا ہے۔ شریف سہما ہوا ہے۔ وہ سب کی مانگے خیر… کون نہیں جانتا کہ آج کے کھرب پتی حکمران سیاست دان، علما کرام، مفتیان عظام، ڈیرے، لچے، غنڈے، حاشیہ بردار سب چور کی ماں کی پیداوار ہیں۔ یہ کنگلے تھے اب ان کے شاندار بنگلے ہیں۔ بیرون ملک ٹھکانے، مال ملکیت کے ڈھیر ہیں، یہی قاتل ہیں یہی مسیحا ہیں، جب تک حاکم سے یہ پوچھنے کا مرحلہ نہیں آئے گا کہ اے عمرؓ یہ کرتا کیسے بنا؟، یا بیٹی فاطمہ چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کٹے گا، اور جس کی گردن میں پھندا آئے اُسے لٹکا دو اور موٹی گردن کو چھوڑ دو والی پالیسی ہے۔ احتساب دیوانے کا خواب ہے دھوکا ہے۔