کراچی کا فنڈ کہاں لگ رہا ہے

143

کراچی کے ساحل پر کئی بستیاں آباد ہیں ان ہی میں سے ایک ریڑھی گوٹھ ہے۔ یہ پاکستان کی قدیم بستیوں میں سے ایک ہے لیکن کراچی کے پسماندہ علاقوں میں سے ہے حالانکہ یہ کراچی صرف 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کراچی سے اس قدر قریب ہونے کے باوجود یہ انتہائی پسماندہ ہے۔ اتنی کے یہاں کے باسی پہلے ہی سے پتھر کے زمانے میں رہتے محسوس ہوتے ہیں۔ مٹی کے کابک نما گھروں میں رہنے والے ساحل کی کالی مٹی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آج سے کوئی 50 سال پہلے یہاں کی مٹی سفید ہوا کرتی تھی اور پانی اتنا صاف کہ ہم اس سے اپنے بال اور جسم صاف کیا کرتے تھے لیکن اب یہ کالی مٹی ہاتھ پیر پر لگ جائے تو ان کی کالک صاف ہوتے کئی دن لگ جاتے ہیں۔

گزشتہ کئی عشروں سے پورے کراچی کا سیوریج کا پانی سمندر میں بہایا جاتا ہے پھر فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی بھی اس میں ڈالا جاتا ہے جس کے باعث یہاں مچھلیوں کی نادر اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔ جو مچھلیاں ملتی ہیں وہ بھی پکانے میں ذائقہ دار نہیں ہوتیں۔ مچھیرے سمندر میں میلوں دور جا کر مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اندازے کی غلطی سے خود بھارتی پولیس کا شکار بن جاتے ہیں جو انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے کے لیے جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ یہاں کی تنگ و تاریک اور غلیظ گلی کوچے منشیات فروشوں کی آماجگاہ ہیں جہاں وہ بچوں اور نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا رہے ہیں۔ غربت اور تعلیم کی کمی انہیں باآسانی اس کا عادی بنا دیتی ہے، یہاں نہ کوئی پارک ہے اور نہ بچوں کے لیے کھیل کود کے لیے کوئی سہولت ہے۔ یہی پسماندہ ریڑھی گوٹھ ہے جہاں پچھلے دنوں اربوں روپے کی مالیت کا پانی کی چوری کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ طاقتور مافیا نے آر او پلانٹ کی آڑ میں پانی چوری کا نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا۔ ظاہر ہے بااثر لوگوں کی مدد کے بغیر اس کا قیام کسی طرح ممکن نہ تھا۔

کراچی کے شہری پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک عرصے سے یہ کاروبار کیا جارہا ہے شہر کو مہیا کیا جانے والا آدھے سے زیادہ پانی چوری کیا جاتا ہے یہ مرکزی پائپ لائنوں سے چوری کیا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرکے انہی کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی زیر زمین پانی سے بھی آر او پلانٹ لگا کر منافع بخش کاروبار کیا جارہا ہے۔

کراچی کے شہریوں کا حال بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ کرپشن کے ذریعے حکومتی سطح پر اس کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے، تعلیمی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جعلی اور متنازع مردم شماری کے ذریعے حق مارا جارہا ہے۔ بجلی کے زائد بلوں کے ذریعے شہریوںکو تکلیف میں مبتلا کرکے لوٹا جارہا ہے، غلط نتائج اور کوٹا سسٹم کے ذریعے کراچی کے ذہین نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کیا جارہا ہے۔

ٹرانسپورٹ، کچرے، خستہ حال سڑکیں کراچی کو بدصورت بنارہی ہیں، دوسرے شہروں سے آنے والوں کو کہیں بھی جھونپڑے بنا کر رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ سپر ہائی وے سے کراچی میں داخلے کے ساتھ ہی میلوں غیر قانونی کچی بستیاں بنوادی گئی ہیں جو کراچی کے چہرے کو اور بدصورت بنارہی ہیں، قبضہ گروپ جس قدر کراچی میں سرگرم ہیں پورے ملک میں کہیں نہیں ہوں گے۔ کراچی پر قابض میئر پیپلز پارٹی کے ہیں جو 16 سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے، انہیں کراچی کے مسائل کا نہ احساس ہے اور نہ ہی انہیں حل کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے وہ ٹائونز جہاں جماعت اسلامی کے کونسلر ہیں۔ انہیں ترقیاتی فنڈ کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔ دراصل وہ ان ٹائونز میں ترقیاتی کام دیکھ کر بوکھلا گئے اور اس کا حل انہوں نے فنڈ بند کرکے نکالا ہے۔ سوچیں کراچی کی قدیم ترین بستی ریڑھی گوٹھ کے مکین پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں جبکہ کراچی کا پانی چوری کرنے والے پانی بیچ بیچ کر ارب پتی بن گئے ہیں۔ سندھ حکومت کراچی پر اربوں کے فنڈ لگانے کا فخریہ اعلان کرتی ہے لیکن وہ کہاں لگائے گئے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اور نہ ہی نظر آتا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے منتخب ٹائونز میں روز کسی ترقیاتی کاموں کا افتتاح ہورہا ہوتا ہے۔