جعلی رئیل اسٹیٹ اسکیموں سے ہوشیار

140

سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حالیہ بیان میں ایک اہم مسئلے کی نشاندہی کی گئی ہے جس کا سامنا ہمارے معاشرے کے متعدد افراد، خصوصاً بزرگ شہریوں کو ہے۔ ایس ای سی پی نے واضح کیا ہے کہ کسی کمپنی کی ایس ای سی پی میں رجسٹریشن ہرگز اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ قانونی طریقے سے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کر رہی ہے، خاص طور پر جب معاملہ رئیل اسٹیٹ اسکیموں اور غیر قانونی ڈپازٹس کا ہو۔ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق، ایس ای سی پی کو مسلسل ایسی شکایات موصول ہو رہی ہیں جن میں معصوم شہری اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ جعلی رئیل اسٹیٹ اسکیمیں عوام کو منافع کے سنہرے خواب دکھا کر اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ یہ اسکیمیں ایف بی آر کے قومی ٹیکس نمبر اور ایس ای سی پی کے انکارپوریشن سرٹیفکیٹ کو قانونی حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہیں، تاکہ سرمایہ کاروں کو دھوکا دیا جا سکے۔ ان فراڈ اسکیموں کا طریقہ کار نہایت خطرناک ہے۔ یہ لوگ سیکڑوں افراد سے سرمایہ جمع کرتے ہیں اور غیر حقیقی منافع کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہ اسکیمیں درحقیقت پونزی اسکیموں کی شکل میں کام کرتی ہیں، جو ابتدائی سرمایہ کاروں کو منافع دے کر دوسروں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ جب سرمایہ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، تو یہ دھوکے باز سرمایہ کاروں کی رقم لے کر غائب ہو جاتے ہیں اور متاثرین کے پاس رقوم کی بازیابی کا کوئی قانونی راستہ نہیں بچتا۔ ایس ای سی پی کا مشورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ عوام کو چاہیے کہ کسی بھی سرمایہ کاری سے قبل مکمل تحقیق کریں، صرف ماہانہ منافع کی لالچ میں نہ آئیں، اور کسی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیں۔ لیکن ساتھ یہ ریاست کا کام بھی ہے کہ اس کے سائے میں اس طرح کے ادارے کس طرح سے کام کررہے ہیں یہ کیسے ممکن ریاست کی سرپرستی کے بغیر یہ کاروبار چلتا رہے، لیکن عوام کی اپنی حکومت اور اس کی ترجیحات کا تو معلوم ہی ہے اس لیے اپنی جمع پونجی کی حفاظت کے لیے خود ہی محتاط رہیں۔ میڈیا، سرکاری ادارے اور تعلیمی ادارے مل کر عوام کو آگاہی فراہم کریں تاکہ کوئی بھی شہری دھوکا دہی کا شکار نہ ہو۔ مالیاتی نظم و ضبط اور ذمے دارانہ سرمایہ کاری ہی ہمارے معاشی تحفظ کی ضمانت ہے۔