غفلت زدہ زندگی

310

غفلت قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘ سے ہے۔ اس کے معنی چھپانا اور غفلت ہے۔ انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے، اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔ غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔
غفلت کا مفہوم
قرآن مجید میں 35 آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبری، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔ سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسفؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریمؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسفؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔ (یوسف: 3)

اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔ اسی سورہ میں حضرت یوسفؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسفؑ کو اپنے ساتھ بکریاںچرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اور شکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے۔ (یوسف: 13)
حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی۔ یہ وقت رات، علی الصبح، یا دوپہر کا ہوگا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔ اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔
سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:

’’جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے‘‘۔ (النور: 23)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا کہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیا آئے، ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا گیا کہ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:
’’اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے‘‘۔ (انعام: 156)

جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیا جائے گا، تو وہ دیوی، دیوتا، فرشتے، انبیا، اولیا، شہدا وہاں اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے برأت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی۔ (انعام: 94)
’’ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمھاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے‘‘۔ (یونس: 29)
دوسرا مفہوم بھلا دینا، بھول جانا، نظر انداز کرنا، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااْبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے۔ ایمان لانے والے، تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین، فجار وفساق، بے پروا، غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دْور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہوتا ہے، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔ وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین، قرآن مجید، اللہ کے احکامات، رسول اللہ کی سنتوں، عبادات، نیکی کے کاموں، انفاق، جہاد فی سبیل، حقوق العباد، آخرت کی جواب دہی، اللہ کی حرام کردہ اشیا سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔