امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہفواتِ بے جا کا دراز ہوتا سلسلہ

129

امریکی عوام کی شامت ِ اعمال کے نتیجے میں امریکا کے صدر منتخب ہونے والے خبیث الفطرت، بدنہاد، بدطینت، بدزبان، بدقماش، بدعنوان، بدکردار اور پست فطرت ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے منصب کا حلف اٹھانے سے پیش تر ہی مختلف معاملات پر جس بے تکے اور بے سروپا انداز میں لن ترانیوں یاوہ گوئی اور ہرزہ سرائیوں کا ایک مضحکہ خیز سلسلہ شروع ہوگیا تھا اس میں اب عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد مزید شدت اور حدت آگئی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑبولے پن پر مبنی بے سروپا بیانات کی وجہ سے تمام اہل دنیا نہ صرف حیران ہیں بلکہ پریشان بھی ہیں۔ ان کی رائے میں صدر ٹرمپ کی اپنے پڑوسی ممالک سمیت دنیا بھر کے ہر معاملے میں کی جانب والی لایعنی بیان بازی اور ٹانگ اڑانے کی پالیسی سے کسی اور کا تو کیا کچھ بگڑے گا خود امریکا اور اس کے صدر ہی کا رہا سہا جو وقار ہے وہ بھی خاک میں مل کر رہ جائے گا۔ صدر ٹرمپ کی بے مقصد الفاظ کی یہ جگالی جہاں خود ان کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن گئی ہے وہیں پر اہل جہاں امریکیوں کے عقل و فہم سے متعلق ان کے اپنے لیے بطور صدر اس انتخاب پر بھی شک و شبہ میں مبتلا ہونے لگے ہیں کہ آخر انہوں نے کیا دیکھ کر اور کس برتے پر اپنے ملک کے اتنے بڑے ذمے دارانہ منصب پر ایسے غیر ذمے دار اور مخبوط الہواس فرد کو منتخب کیا ہے؟ جس نے اپنے اوٹ پٹانگ بیانات اور عاقبت نااندیشی پر مبنی پالیسیوں سے اپنے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے لیے بھی مفت ہی میں بدنامی، رسوائی اور جگ ہنسائی کا سامان مول لے لیا ہے۔ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ بھلے سے طاقتور ترین امریکی صدر ہو لیکن ہے تو بہرحال اپنی نہاد اور فطرت میں ایک کمزور، عارضی اور فانی انسان ہی، یہی وجہ ہے کہ جب وہ متکبرانہ انداز اور رعونت بھرے لب و لہجے میں اہل فلسطین یا ایران اور اپنے پروسی ممالک سمیت اپنے دیگر مخالفین کو دھمکیاں دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو جہاں بسا اوقات اس کی ذہنی حالت پر ترس آنے لگتا ہے وہیں ادنیٰ سے تصرف کے ساتھ بے مثال اور منفرد شاعر افتخار عارف کا یہ مشہور شعر ذہن میں در آتا ہے۔

یہ وقت کس کی رعونت پہ بھی خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا ’’ہے‘‘ خدا کے لہجے میں

جب فرعون، نمرود، چنگیز خان، ہلاکو، سکندر اعظم کی طرح کے بڑے بڑے فاتح اور ظالم و جابر فنا کی گھاٹ اُتر گئے تو آخر یہ فانی انسان ڈونلڈ ٹرمپ عارضی اقتدار پا کر کیوں اور کس لیے حد درجہ غلط فہمی کا شکار ہو کر یوں اول فول بکنے لگا ہے۔ عہدۂ صدارت کا حلف اٹھانے سے قبل اخلاق باختہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے متکبرانہ انداز میں اہل فلسطین کو دھمکاتے ہوئے یہ گیدڑ بھبکی دی تھی کہ ’’اگر 20 جنوری تک میرے صدارتی منصب سنبھالنے سے قبل اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو ایک قیامت (حماس پر) ٹوٹ پڑے گی‘‘ لیکن ساری دنیا نے پھر یہ منظر چشم حیرت سے ملاحظہ کیا کہ مجاہدین فلسطین نے اپنی تمام پیش کردہ شرائط کی تکمیل کے بعد ہی اپنے پاس موجود یرغمالیوں کو رہا کیا اور مخبوط الحواس صدر ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیوں کو پرکاہ کے برابر بھی کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے انہیں اپنے جوتے کی نوک پر رکھ دیا۔ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ بیان سمیت اس کے دیگر مضحکہ خیز دیے گئے بیانات کی عملی طور پر مٹی پلید ہو ہی رہی تھی اور ان بیانات کی ہرجا بھد اُڑائی ہی جارہی تھی کہ کل مجہول الفطرت ڈونلڈ ٹرمپ نے کریہہ الصورت اور مکروہ فطرت کے ملعون اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ امریکا میں کی گئی اپنی 39 منٹ پر محیط طویل پریس کانفرنس میں لن ترانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اہل فلسطین کو غزہ سے بے دخل کرکے انہیں اردن اور مصر میں بسایا جائے گا۔ امریکا غزہ کا کنٹرول سنبھال کر اسے دنیا کے ایک جدید اور ترقی یافتہ ترین علاقے میں تبدیل کردے گا جہاں دنیا بھر سے لوگ آیا کریں گے۔ اس موقع پر ہر دو گھٹیا فطرت رہنمائوں نے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا زہر اُگلتے ہوئے انہیں اپنی ہی سرزمین سے جلاوطن کرنے کے لیے مختلف النوع ناپاک، مذموم اور گھنائونی تدابیر بھی پیش کیں۔ ٹرمپ نے نہ صرف غزوہ پر اپنے طویل المیعاد ناپاک قبضے سے متعلق اپنے مکروہ عزم کا اظہار کیا بلکہ نام نہاد ابراہام معاہدے کے توسط سے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کو بھی اپنے اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ اردن اور مصر اس سے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے اہل غزہ کو ان کے ممالک میں آباد کیے جانے کے متعلق دیے گئے بیان کو سختی کے ساتھ رد کرکے اسے مبنی برناانصافی اور ایک ظلم کے مترادف قرار دے چکے ہیں۔ آسٹریلیا کے وزیراعظم، سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن شاہ سلمان سمیت کئی ممالک کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کی مذکورہ پریس کانفرنس میں ظاہر کردہ ناپاک عزائم کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ناقابل عمل قرار دیا جا چکا ہے، تاہم سب سے زیادہ حیرت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ناقابل عمل اور مجہول سوچ پر ہوتی ہے، معلوم نہیں کیوں وہ اپنے ملک کی ویت نام اور افغانستان سے بے پناہ نقصان، ذلت اور رسوائی کے ساتھ پسپائی اور فرار کو اتنی جلدی کیوں فراموش کرگئے ہیں کہ غزہ کو امریکی کنٹرول میں اور وہ بھی ایک طویل عرصے کے لیے لینے کے سہانے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی اوٹ پٹانگ پالیسیوں کی بنا پر سابق سوویت یونین کے آخری آنجہانی صدر گوربا چوف کی طرح سے اپنے ملک کی شکست وریخت کا سبب بن جائیں۔ امریکی صدر کی پریس کانفرنس میں ظاہر کردہ مذکورہ ناپاک عزائم پر جس طرح سے ملعون اسرائیلی وزیراعظم نے فی الفور ہی صاد کیا ہے وہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ عالم کفر کس طرح سے اہل فلسطین کو ختم کرنے کے گھنائونے خواب دیکھنے میں مصروف ہے۔ آج دورِ حاضر کے فراعین ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو جس طرح سے طاقت اور قوت کے اندھے نشے میں چور ہو کر اہل فلسطین کو ختم کرنے کے سہانے سپنے دیکھ رہے ہیں بعینہٖ ان کے پیش رو فرعون مصر نے بھی ’’اناربکم الاعلیٰ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سیدنا موسیٰؑ پر ایمان لانے والوں کو انجام بد کی دھمکی دی تھی لیکن انہوں نے جواباً بجائے مرعوب ہوئے بغیر قرآن کی زبان میں یہ جواب دیا تھا ’’کہ تم جو کچھ کرسکتے ہو، کرلو، تم زیادہ سے زیادہ اس دنیا کا فیصلہ کرسکتے ہو، لیکن ہم آخرت پر اس دنیا کو ہرگز ترجیح نہیں دیں گے۔ (سورۃ طہٰ: 72) ان شاء اللہ فرعون مصر کی طرح دور حاضر کے یہ فراعین بھی خائب و خاسر ہی رہیں گے اور فتح و کامرانی اہل فلسطین کا مقدر بنے گی جن کے لیے مخبر صادق سیدنا محمدؐ یہ عظیم بشارت بہت پہلے ہی دے چکے ہیں ’’میری امت کا ایک گروہ دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا۔ ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا اور وہ اسی حالت پر ہوں گے‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے گردونواح میں ہوں گے‘‘۔ (مسند احمد)