سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلیے فلسطینی ریاست کا مطالبہ

125

ریاض: سعودی عرب نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اس وقت تک قائم نہیں کرے گا جب تک کہ ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جاتی۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق  سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ “سعودی عرب فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے،فلسطین کے حوالے سے اس کا مؤقف غیر متزلزل ہے، ہم امریکی صدر کے اس دعوے کی تردید کرتے  ہیں کہ سعودی عرب  فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ نہیں کر رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاست کے مؤقف کو “واضح اور غیر مبہم انداز میں” بیان کیا ہے، جس میں کسی بھی قسم کی غلط تشریح کی گنجائش نہیں ہے، فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا کوئی بھی منصوبہ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے عرب خطے کے لیے حساس مسئلہ ہے۔

خیال رہےکہ جب سے اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ کا آغاز ہوا، فلسطینی ایک اور “نکبہ” یعنی تباہی کے خوف میں مبتلا ہیں، جیسا کہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

واضح رہےکہ  امریکا کئی ماہ سے سفارتی کوششوں میں مصروف تھا کہ سعودی عرب جو مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور عرب ممالک میں سے ایک ہے، اسرائیل کو تسلیم کرے اور اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے تاہم غزہ جنگ کے بعد، ریاض نے اس عمل کو روک دیا کیونکہ اسرائیلی حملوں کے خلاف عرب ممالک میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

ٹرمپ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب بھی متحدہ عرب امارات اور بحرین کے نقش قدم پر چلے، جنہوں نے 2020 میں “ابراہیم معاہدوں” کے تحت اسرائیل کو تسلیم کیا اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کیے

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاکہناہے کہ امریکا غزہ کا کنٹرول سنبھالے گا اور فلسطینیوں کو کہیں اور بسانے کے بعد اس علاقے کو ترقی دے کر ایک جدید خطہ بنائے گا۔