مسئلہ کشمیر اور ہم

135

کشمیر جنت نظیر جسے قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ اس کا وجود پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔ پچھلے سات عشروں سے ہمیں یہ کہہ کر بہلایا جاتا رہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے گا لیکن اقوام متحدہ جو بڑی طاقتوں کی رکھیل ہے۔ آج تک کچھ نہ کرسکی اور نہ ہی آئندہ کرپائے گی مسلمانوں کے مسائل کے لیے عالمی میڈیا منافقت سے کام لیتا ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ جب 5 اگست 2019ء کو غاصب انڈیا نے بڑی ڈھٹائی سے اس شہ رگ پر بھرپور اور کاری وار کیا اور مقبوضہ کشمیر کی سابقہ متنازع حیثیت کو ختم کرکے ہمیشہ کے لیے بھارت کے وفاق کی ایک اکائی بنادیا، بھارت کا یہ قدم کھلی کھلی جارحیت تھا لیکن ثالثی کرانے والی جس سپر پاور پر اعتماد کیا جارہا تھا اس نے بادل نخواستہ لب کشائی بھی کی تو بس اتنا کہنا کافی سمجھا کہ مسئلہ کشمیر دونوں ملکوں کا داخلی معاملہ ہے۔ انہیں مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ پھر خود پاکستان نے بھی اس پر ویسا احتجاج نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ ایک کشمیر کمیٹی بھی تھی جس کے سربراہ ایک بڑی دینی جماعت کے بھی سربراہ تھے لیکن وہاں بھی نشستند، گفتند و برخاستند سے زیادہ کچھ نہ ہوا۔ پھر پاکستان کو جب ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل میں صدارت کا موقع ملا تھا اس وقت بھی بقول سید نذیر گیلانی پاکستان نے اس مسئلے کو نہیں اُٹھایا اس سے کیا ثابت ہوا کہ ہمارے ارباب بسنت و کشاد کے نذدیک یہ کوئی ایسا مسئلہ ہے ہی نہیں جس کا تعلق پاکستان کی بقا سے ہے۔

اب پھر ایک بار آزاد کشمیر کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کی طفل تسلی کے لیے وہاں کے وزیراعظم نے بھی جہادی کلچر کی بحالی کا اعلان کردیا ہے جبکہ گزشتہ دو دہائیوں میں آزاد کشمیر سے بڑی محنت سے جہادی کلچر کا صفایا کردیا گیا تھا بلکہ واقفانِ حال سوالی ہونے میں حق بجانب ہیں کہ جس سوئچ کو بہت محنت سے آف کیا گیا تھا اب اسے آن کرنے کی کون سی مجبوری اور ضرورت آن پڑی ہے بقول شاعر

بگاڑ کر بنائے جا، اُبھار کر مٹائے جا
کہ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ عسکری جدوجہد ہی بھارت کے خوفناک عزائم کا توڑ اور کشمیر کی آزادی کا واحد راستہ ہے۔ کشمیر سے ہمارا نظریاتی، تاریخی، تہذیبی اور جغرافیائی رشتہ ہے، پانچوں بڑے دریا وہاں سے نکلتے ہیں اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ انسانی زندگی کا انحصار پانی پر ہے، پھر پاکستان جو ایک زرعی ملک ہے زراعت کے لیے تو پانی چاہیے، لیکن بھارت نے قیام پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ کالی ماتا کے پجاریوں کی آتش انتقام بنگلادیش بنوا کر بھی نہ بجھی اور آج بھی پاکستان کے ایک صوبے بلوچستان میں اس کا ناپاک کھیل جاری ہے اگرچہ ہماری اپنی کوتاہیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ اس وقت تقریباً آٹھ نو لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ وادی میں تعینات ہیں، نہتے کشمیریوں پر ایسے مظالم ڈھائے گئے اور ڈھائے جارہے ہیں کہ دنیا کی کوئی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ کشمیر میں ہزاروں جوان شہید ہوچکے ہیں، کئی ہزار کشمیری عورتیں گھروں سے اٹھالی گئیں، بچوں اور جوانوں کو، آنکھوں میں چھرے مار مار کر، ترپا تڑپا کر مارا گیا۔ مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری اور پورے پورے خاندانوں کا قتل عام یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے باہر سے لا کر ہندوئوں کو بسایا گیا۔ تقریباً 34 لاکھ غیر مقامیوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کردیے گئے جس پر محبوبہ مفتی اور میرواعظ عمر فاروق جیسے سیکولر سوچ رکھنے والے بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ بھارت نے دنیا کو دکھانے کے لیے سیکولر ازم کی جو نقاب اوڑھ رکھی تھی وہ خود ہی نوچ کر پھینک دی ہے اور ان دونوں نے یہ بھی اعتراف کیا ہم نے دو قومی نظریے کو جھٹلا کر غلطی کی تھی۔ بھارت پر بھروسا کرنا ہماری غلط فہمی تھی۔

ان تمام حقائق روشنی میں بحیثیت اُمت ہماری یہ ذمے داری ہے کہ عالمی ضمیر بے شک مُردہ اور منافق ہوجائے تو ہوتا رہے لیکن خونِ مسلم کی ارزانی پر ہم خاموش نہ رہیں کیونکہ اللہ کی کتاب تو ہم سے یہ کہتی ہے کہ ’’نکلو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں‘‘۔ اہل غزہ سے سبق سیکھو پھر امت مسلمہ تو نبی اکرمؐ کے ارشاد مبارک کے مطابق ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک حصے میں خنجر بھونک دیا جائے تو پورا جسم کیسے تڑپے گا یہ ہم تصور بھی کرسکتے ہیں اور محسوس بھی کرسکتے ہیں۔ ظالم اور غاصب پڑوسی حکمران تو آہستہ آہستہ پاکستان کو بنجر کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، دریائوں پر بند باندھ باندھ کر پاکستان کا پانی روکتے رہے اور ہمارا مقدمہ لڑنے والے عالمی عدالتوں میں کمزور وکالت اور بغیر تیاری کے جا کر منہ کی کھا کر آتے رہے۔ سندھ طاس منصوبہ (انڈس بیسن ٹریٹی) جو دراصل پاکستان کو بنجر کرنے کا منصوبہ تھا جس کی طرف ایک حساس شاعر نے یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ: امیر شہر نے دریا وہ سارے بیچ ڈالے ہیں۔

اب تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مصداق دریائے نیلم کا پانی روکنے اور وادی کو بنجر بنانے کے لیے بشن گنگا ڈیم کے نام سے ایک اور بند بنا ڈالا۔ حکیم محمد سعید شہید نے بہت پہلے بڑی اچھی اور پتے کی بات کہی تھی کہ پاکستان کی بدقسمتی کہ پاکستان کو قائداعظم کے بعد مخلص قیادت نہیں ملی جس کا اظہار خود قائد محترم نے بھی یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ اور یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں رہی کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات بہت گہرے ہوچکے ہیں ’’مشرقِ وسطیٰ کا شیطان‘‘ جنوبی ایشیا کے شیطان کو بتاتا رہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا آسان حل یہ ہے کہ جس طرح ہم نے فلسطینیوں کو مار مار کر ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا، فلسطینی علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کرکے یہودیوں کی ناجائز بستیاں قائم کیں تم بھی مقبوضہ کشمیر میں غیر مقامی ہندوئوں کی ناجائز بستیاں قائم کرکے اپنی اکثریت دکھا دو۔ چنانچہ جموں میں انہوں نے یہی کیا۔ کشمیری مزاحمت کریں تو انہیں طاقت سے کچل دو عورتیں مرتی ہیں یا بچے ہلاک ہوتے ہیں تو اس کی پروا مت کرو، سیّاں بھئے کوتوال تو ڈر کس کا ہے؟ بری طاقتیں تمہارے ساتھ ہیں نام نہاد عالم انسانیت اور اقوام متحدہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جیسے اب تک اسرائیل کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ آج ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کمزور کے نہیں طاقتور کے پیچھے چلتی ہے، حکیم الامت تو بہت پہلے ہمیں یہ بات سمجھا گئے تھے کہ

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مناجات

یاد رکھیے ہمارے لیے اصل چیز ایمان کی طاقت ہے۔ اللہ پر بھروسا ہے غزہ میں کیا ہوا؟!! اِسی ایمان کی قوت اور اللہ پر بھروسے کے ذریعے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ افغانستان میں کیا ہوا تھا ایک بار روس جیسی سپر پاور کو اور دوسری بار ناٹو کی افواج سمیت سپر پاور کو افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا کیونکہ

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

فروری کا مہینہ ہمارے لیے بہت اہم ہے کیونکہ پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور اور کشمیر میں شیر صفت سید علی گیلانی وہ دو عظیم شخصیات تھیں جو ہمہ وقت کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے اور آج بھی جماعت اسلامی اس مسئلے کے لیے نہ صرف سرگرم عمل ہے بلکہ اس کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھاتی ہے اور موجودہ قائد جناب حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں اس موقف پر قائم ہے کہ کشمیر کے بغیر تکمیل پاکستان کا ایجنڈا ادھورا اور نامکمل ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو یہ توفیق دے کہ وہ کشمیر فروشی کے بجائے تکمیل پاکستان کے ایجنڈے پر کام کریں اس یقین اور اعتماد کے ساتھ کہ

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

اب تو آزاد کشمیر میں بھی پھر سے یہ نعرے لگنا شروع ہوگئے ہیں کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ‘‘۔ کشمیر آج بھی پاکستان کا دفاعی حصار ہے اللہ کریم ہمیں بنیان مرصوص بن کر حق کا ساتھ عملی طور پر دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین

فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی