کراچی کے طلبہ اور والدین مایوسی کا شکار ہیں

163

کراچی میں انٹر کے طلبہ کی بہت بڑی تعداد میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم ہوگئی۔ آج یہ ایک دلخراش خبر پڑھنے کو ملی۔ خبر کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ ’’سندھ حکومت کی ڈومیسائل پالیسی کی وجہ سے کراچی کے تعلیمی اداروں سے انٹر میٹرک اور او لیول کرنے والے امیدواروں کی نمایاں اکثریت میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے سے محروم ہوگئی اور ان کی جگہ تینوں صوبوں، وفاق اور اندرون سندھ کے طلبہ کراچی کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ کراچی میں ٹاپ نمبر پر آنے والی امیدوار نے اپنا میٹرک اور انٹر اسلام آباد سے کیا ہے جبکہ اس نے ڈومیسائل کراچی کا لگایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائینسز جام شورو نے جو سندھ بھر کے سرکاری میڈیکل کالجوں کی فہرست جاری کی ہے اس میں کراچی کے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی 1180 نشستوں میں سے 600 سے زائد نشستیں غیر مقامی طلبہ نے حاصل کرلی ہیں۔ حیران کن طور پر ان طلبہ کے انٹر میڈیٹ میں غیر معمولی نمبر ہیں، جو کراچی کے طلبہ کے لیے ممکن نہیں کیونکہ کراچی بورڈ میں 85 فی صد سے زائد نمبر لینے والے صرف 250 طلبہ تھے جبکہ میڈیکل میرٹ لسٹ میں تعداد 900 سے تجاوز کرچکی ہے، یہ واضح کرتا ہے کہ زیادہ تر داخلے پنجاب، خیبر پختون خوا، وفاق، اندرون سندھ، بلوچستان اور دیگر علاقوںکے طلبہ نے حاصل کیے ہیں۔ ذمہ دار ذرائع نے خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں سے انٹر میڈیٹ اور او لیول کرنے والے امیدواروں کی اکثریت میڈیکل اور ڈینٹل کالج میں داخلہ لینے سے محروم ہوگئی کیونکہ دوسرے بورڈز والوں کے نمبر زیادہ تھے مگر ان کا ڈومیسائل کراچی کے مختلف علاقوں کا تھا‘‘۔

اس خبر سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پچھلے دنوں انٹر بورڈ میں کراچی کے ذہین طلبہ کے جنہوں نے میٹرک میں اے ون اور اے گریڈ حاصل کیے تھے انٹر میڈیٹ میں ان کے نمبر چالیس پچاس فی صد تک کیسے آگئے اس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی کے طلبہ کے ساتھ

وفاق اور صوبہ سندھ دونوں مل کر ظلم کررہے ہیں۔ والدین کتنی محنت سے اپنا پیٹ کاٹ کر مہنگائی کے اس دور میں اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے دن رات ایک کردیتے ہیں۔ اس طرح کی سرکاری وارداتوں میں جہاں طلبہ مایوس ہوتے ہیں وہیں والدین میں بھی غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ پچھلے سال بھی کراچی کے ذہین طلبہ کے مستقبل پر ڈکیتی کی اسی طرح کی واردات ہوئی تھی تو نگراں وزیر اعلیٰ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے بورڈ کے کچھ افراد کی نشاندہی کی تھی کہ یہ لوگ اس ظلم کے ذمے دار ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ تو ہمارے ملک کی پرانی ریت ہے کہ سقوط مشرقی پاکستان جیسا سانحہ ہوگیا حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ میں ملک کے جن اعلیٰ افسران کے خلاف ایکشن لینے کی سفارش کی گئی تھی ان میں سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی وہ سب قوم کے درمیان آرام سے جیے اور مرے تو قومی پرچم میں دفنادیے گئے۔ اس سال بھی جب بہت زیادہ شور اٹھا تو حکومت سندھ نے حسب روایت تحقیقاتی کمیٹی بنائی لیکن اندیشہ ہے کہ یہ صرف کاغذی کارروائی ہے کچھ ہو ہوائے گا نہیں۔ اس کے لیے میری صرف دوتجاویز ہیں کہ کراچی کے ڈومیسائل کے نظام کو درست کیا جائے اور صرف ان ہی کے ڈومیسائل بنائے جائیں جنہوں نے میٹرک اور انٹر کراچی بورڈ سے کیے ہوں۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ کراچی میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ڈومیسائل کے بجائے کراچی بورڈ کے میٹرک اور انٹر میڈیٹ والوں کو میرٹ کی بنیاد پر داخلے دیے جائیں۔ اس طرح کی صورتحال کیوں اور کیسے وقوع پذیر ہوئی اس میں کون لوگ اور کون سی سیاسی جماعتیں ذمہ دارہیں ہم نے ایک مضمون 17 فروری 2021کو ’’کراچی کے نوجوانوں کی فکر کیجیے‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا اس کے کچھ اقتباس پیش خدمت ہیں اس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے۔

’’کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ موجودہ صوبائی حکومت سوتیلی ماں جیسا جو سلوک کررہی ہے وہ خود اس کو بہت مہنگا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی کے اندر جو اردو اسپیکنگ بالخصوص سعید غنی تاج حیدر اور وقار مہدی جیسے رہنما ہیں وہ اپنی پارٹی کے اس طرز عمل پر غور کریں اور پارٹی کے اندر اس سلسلے میں آواز اٹھائیں ورنہ جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے وہ جب پھوٹے گا تو سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے وفاقی حکومت کو خط لکھا ہے کہ پچھلے ڈھائی تین سال سے کراچی میں تیس ہزار سے زائد اندرون سندھ کے لوگوں کو جعلی ڈومیسائل پر ملازمتیں دی گئیں ہیں اور سندھ کے شہری علاقوں سے ایک بھی نوجوان کو ملازمت پر نہیں رکھا گیا اسی طرح کراچی میں جو سرکاری ملازمتیں نکل رہی ہیں اس میں بھی کراچی کے نوجوانوں کے لیے پابندی ہے دیہی علاقوں سے یہ آسامیاں پر کی جارہی ہیں۔

سندھ سیکٹریٹ سندھی سیکٹریٹ بن چکا ہے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں ایسے اساتذہ اپوائنٹ کیے گئے ہیں جنہیں انگلش تو دور کی بات ہے ٹھیک سے اردو پڑھنا بھی نہیں آتی، وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ کے لوگ کھلے تعصب کا مظاہرہ کررہے ہیں اندرون سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں کے نوجوان تو بہت آسانی سے کراچی کے ڈومیسائل بنوالیتے ہیں۔ لیکن کراچی کا کوئی نوجوان اندرون سندھ سمیت کہیں کا بھی ڈومیسائل نہیں بنوا سکتا، 1973 کے دستور میں کوٹا سسٹم کو دس سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا جب 1979میں بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی اور جنرل ضیاء صاحب نے پہلا کام تو یہ کیا کہ 1973 کے دستور میں سندھ میں جو کوٹا سسٹم دس برس کے لیے نافذ تھا 1983 میں اس کو ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن جنرل ضیاء صاحب نے اس کو دس سال کے لیے مزید بڑھا دیا۔ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کے نوجوان سرکاری ملازمتوں اور پروفیشنل کالجز میں داخلوں کے حوالے سے پہلے ہی سے زخم خوردہ تھے، جنرل ضیاء کے اس فیصلے سے ان کے زخم اور ہرے ہو گئے اور اس وقت کی فوجی حکومت نے یہ فیصلہ جان بوجھ کر کیا تھا انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی وہ ایک سندھی وزیر اعظم کو پھانسی دے چکے تھے اس لیے ایک عام سندھی کو اس بہانے سے خوش کرنا چاہتے تھے دوسرا شکار انہوں نے شہری نوجوانوں کا کیا کہ ان نوجوانوں کو قومی جماعتوں سے کاٹ کر لسانی جماعتوں کے ڈربے میں بند کردیا اسی ردعمل کے نتیجے میں ایم کیو ایم وجو د میں آئی۔ جنرل ضیاء صاحب نے کراچی سے جماعت اسلامی کے اثر رسوخ کو ختم کرنے کے لیے ایم کیو ایم کی بھرپور سرپرستی کی اور یہ کہ نہ صرف سرپرستی کی بلکہ انہیں ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ دی۔ اگست 1986 میں نشتر پارک میں ایم کیو ایم کا جو پہلا جلسہ ہوا اس میں اسٹیج کی تصویر تو آج بھی اخبارات کے ریکارڈ میں ہوگی کہ کس طرح اسٹیج پر الطاف حسین کے چاروں طرف کلاشنکوف بردار کھڑے تھے، شدید بارش کے باوجود یہ بہت کامیاب جلسہ تھا کچھ دن بعد حیدر آباد میں بھی بہت زبر دست جلسہ ہوا۔ اس کے بعد تو ایم کیو ایم نے پھر پلٹ کر نہیں دیکھا اور 1986 سے 2016 تک جتنے انتخابات ہوئے اس میں یہی جیتتی رہی اور اس پورے تیس برس کے عرصے میں ایم کیو ایم برسر اقتدار رہی اس لیے ملک میں پی پی پی کامیاب ہو یا ن لیگ کامیاب ہو انہیں حکومت سازی کے لیے ایم کیو ایم کی ضرورت پڑتی اس لیے کہ طاقت کا توازن ایم کیو ایم کے پاس ہوتا اس لیے ہر جیتنے والی سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے کے لیے نائن زیرو پر آکے سجدہ کرنا پڑتا، کوٹا سسٹم ایک آئینی مسئلہ تھا اس لیے اگر ایم کیو ایم چاہتی تو ان قومی جماعتوں سے یہ بات منوا سکتی تھی کہ کسی بھی آئینی ترمیم سے دستور سے کوٹا سسٹم کو ختم کر کے پورے ملک میں میرٹ کو لاگو کیا جائے۔

ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایم کیو ایم دو اہم ایشو پر پورے تیس سال مجرمانہ غفلت کا شکار رہی ہے ایک تو کراچی کے نوجوانوں کے لیے کوٹا سسٹم ختم کرانا دوسرے مشرقی پاکستان سے بہاریوں کو واپس لانا۔ بلکہ مزید افسوس اس بات کا ہے پچھلے تیس برسوں میں تیس ہزار سے زائد نوجوانوں کو تاریک راہوں میں مروا دیا گیا اس سے کہیں زیادہ تعداد میں سندھ کے شہری علاقوں کے نوجوان بے روزگاری کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کی پچھلی بیس سالہ تاریخ بوری بند لاشوں، آپس کے خونیں تصادم اور بھتا خور ی سے بھری پڑی ہے آج کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ موجودہ حکومت جس تعصب کا مظاہرہ کررہی ہے اس کی ایک طرح سے ذمے دار ایم کیو ایم کی پچھلی تیس سالہ مجرمانہ غفلت بھی ہے‘‘۔