جامعات میں ایم اے پاس بیوروکریٹ وی سی

342

سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں کے ترمیمی قانون کی منظوری پیپلزپارٹی کی تعلیم دشمنی کا تسلسل ہے یہ خاص طور پر شہر کراچی کی جامعات کے لیے تشویشناک ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کی موت ہے۔ یہ قدم نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کرے گا بلکہ جامعات کی خود مختاری پر بھی کاری ضرب لگائے گا۔ اس قانون کے ذریعے سندھ کی جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر کرنے کی راہ ہموار کر دی گئی ہے، جو کہ ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اساتذہ اور طلبہ نے احتجاج کیا ہے بلکہ وفاقی ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے بھی سندھ کی نئی پالیسی کو ’’جامعات کے لیے تباہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایچ ای سی کے موقف کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نے مشاورت کے بغیر میڈیا کو مطلع کیا، جبکہ صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیمات انتظامی بدعنوانیوں اور مالی بے ضابطگیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم، سندھ حکومت کی جلد بازی اور قانون سازی کا طریقہ کار خود کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ یہ قانون بنا کسی مشاورت اور مجلس ِ قائمہ میں بھیجے بغیر منظور کیا گیا، جو کہ جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ اس وقت سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت بیوروکریٹس کو وائس چانسلر مقرر نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انجمن اساتذہ جامعہ کراچی اور فپواسا کے مطابق، یہ ترمیمی قانون جامعات کی خود مختاری پر براہ راست حملہ ہے اور اسے فوری طور پر واپس لیا جانا چاہیے۔ احتجاجی تحریک جاری رہنے کے ساتھ ساتھ، اساتذہ کی یونینز نے عدالتی چارہ جوئی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دوسری جانب، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ وہ اس بحران کو ’’انتظامی طور پر‘‘ حل کر لیں گے۔ تاہم، صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ تعلیمی اداروں کی خودمختاری اور سیاسی مداخلت کا یہ تنازع جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ اس متنازع قانون کو ختم کرے اور جامعات کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ، ماہرین تعلیم اور طلبہ کی رائے کو اہمیت دے۔ بیوروکریسی کے ذریعے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنا نہ صرف تعلیمی عمل کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہ لیا گیا تو سندھ کی جامعات علمی زوال اور انتظامی بحران اور کرپشن کا مزید شکار ہو جائیں گی، جس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو سیاست سے بالاتر رکھتے ہوئے ایسے فیصلے کرے جو واقعی تعلیمی بہتری اور اداروں کی ترقی کے ضامن ہوں۔