بکھری بکھری خبروں پر ایک نظر

140

5 فروری تاریخ تھی سن یاد نہیں ہے یوم کشمیر کے موقع پر جماعت اسلامی نے پورے ملک میں ہاتھوں کی زنجیر بنا کر مظاہرے کا پروگرام بنایا تاکہ اہل کشمیر کو باور کرایا جاسکے کے ہم اہل پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت کراچی نے شاہراہ فیصل پر ہاتھوں کی زنجیر بنانے کا پروگرام بنایا اس میں کارکنان جماعت کے علاوہ کراچی کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں حصہ لیا۔ شاہراہ فیصل کے کنارے میلوں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بن گئی ہم جہاں کھڑے تھے وہاں ایک دلچسپ واقعہ ہوگیا۔ اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے نئی نسل کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پانچ فروری کو یوم کشمیر کی تعطیل کا آغاز کیسے اور کب سے ہونا شروع ہوئی۔ جب بے نظیر بھٹو پہلی بار وزیر اعظم بنی تو اس وقت نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد نے 5 فروری کو یوم کشمیر منانے کا اعلان کیا۔ نواز شریف نے اس کی حمایت کرتے ہوئے یوم کشمیر کو صوبائی سطح پر منانے کا اعلان کیا اور اس روز صوبہ پنجاب میں عام تعطیل کا اعلان کیا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی اس کی حمایت کی۔ اس دن جماعت اسلامی نے پورے ملک میں یوم کشمیر کے حوالے سے ریلیاں نکالیں۔ بعد میں حکومت نے 5 فروری کو یوم کشمیر کے حوالے سے سرکاری طور پر عام تعطیل کا اعلان کردیا۔ اب ہر سال 5 فروری کو پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ کچھ دن بعد پھر پانچ فروری آنے والا ہے اس جماعت اسلامی تو اپنی اس روایت پر عمل کرتے ہوئے پورے ملک میں جلسے جلوس کا انعقاد کرے گی اور اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور کچھ غیر سرکاری و سماجی تنظیمیں اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی کشمیری مجاہدین کے حق میں پروگرام کرتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد اب اس واقع کی طرف آتے جو کسی سال کی پانچ فروری کو پیش آیا تھا، ہم جس جگہ ہاتھوں کی زنجیر بنائے کھڑے تھے ویسے تو تاحد نگاہ لوگ فٹ پاتھ پر زنجیر بنائے کھڑے تھے تو ہماری لائن کے لوگ جو کافی دور تک تھے کبھی آگے روڈ کی طرف جاتے کچھ لمحے بعد پھر پیچھے فٹ پاتھ کی طرف ہوجاتے ہم نے ذرا جھک کر دیکھا تو دور ایک صاحب گلے میں رومال ڈالے یہ کام کررہے ہیں کہ پوری لائن کو ہاتھ کے اشارے سے آگے آنے لیے کہتے اور پھر کچھ دیر بعد پیچھے ہونے کا اشارہ کرتے پہلی دفعہ تو ہم نے سوچا کہ چلو ایسا وہ کچھ نمایاں کرنے کے لیے کررہے ہیں کہ سڑک پر ہوں گے دور سے ایک اچھا ویو بنے گا جب دو تین مرتبہ انہوں نے ایسا کیا ہمیں الجھن ہوئی ایسا کیوں کررہے ہیں پھر وہ صاحب نظر نہیں آئے اور ہم ایک ہی جگہ کھڑے رہے تھوڑی دیر بعد پروگرام ختم ہوگیا ہماری لائن میں وکلا تھے صحافی اور داشور بھی تھے اعلیٰ تعلیم یافتہ، نیم خواندہ اور ناخواندہ بھی تھے، کاروباری تجارت پیشہ لوگ تھے ملازمت کرنے والے تھے نوجوان اور بوڑھے بھی تھے بہرحال ہمیں بعد میں معلوم ہوا وہ صاحب کوئی کارکن وغیرہ نہیں تھے بلکہ کوئی عام سا نفسیاتی ٹائپ کا آدمی تھا جو ہم سب سے کھیل رہا تھا، خیر جب کوئی جماعت عوامی جماعت بننے جارہی ہوتی ہے تو ایسے واقعات ہوجاتے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے یہ واقعہ ہم نے کیوں درج کیا ہم اس کی وضاحت نہیں پیش کرسکتے کہ آج ہی پیکا کا قانون سینیٹ سے بھی منظور ہوگیا ہے۔ ویسے تو یہ سوشل میڈیا کے لیے ہے لیکن کہیں بھی اور کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پورا مضمون پڑھنے کے بعد آپ کو اس واقع کو لکھنے کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔

سوشل میڈیا میں ایک کلپ دیکھی کہ ایک یو ٹیوبر نے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن سے پوچھا کہ بلدیاتی انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے کہا تھا کہ حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی پاکستان کے امیر تو بن سکتے ہیں لیکن کراچی کے میئر نہیں بن سکتے آپ کیا کہتے ہیں اس پر؟ حافظ نعیم نے جواب میں کہا کہ ’’ویسے تو سعید غنی ہمارے دوست ہیں لیکن یہ تو پوری دنیا جانتی اور سعید غنی خود بھی جانتے ہیں پیپلز پارٹی کا میئر کیسے بنایا گیا، پھر انہوں نے یو ٹیوبر سے مخاطب ہوکر کہا کہ دیکھیے آپ اگر جماعت میں شامل ہوجائیں تو آپ بھی امیر بن سکتے ہیں لیکن سعید غنی کتنا ہی پیپلز پارٹی کے لیے کام کرلیں وہ کبھی پی پی پی کے چیئرمین نہیں بن سکتے۔ اسی طرح ن لیگ کے خواجہ سعد رفیق اچھی گفتگو کرتے ہیں، اچھے آدمی ہیں جب وہ وزیر ریلوے تھے تو ان کی بڑی اچھی کارکردگی تھی اور کچھ ڈیلیور کرکے دیا تھا لیکن وہ کبھی ن لیگ کے صدر نہیں بن سکتے اس لیے کہ یہ خاندانی پارٹیاں ہیں اس میں خاندان ہی کے لوگ اوپر آسکتے ہیں‘‘۔ حافظ صاحب ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہوں گا کہ سوائے جماعت اسلامی کے تمام سیاسی جماعتیں خاندانی جماعتیں ہیں۔ مولانا مفتی محمود کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے مولانا فضل الرحمن جے یو آئی کے سربراہ بنے اب مولانا کے بیٹے بھی سیاست میں فعال ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے خان عبدالغفارخان کے بعد ان کے بیٹے خان عبدالولی خان پارٹی سربراہ بنے ان کے بعد ان کے بیٹے اسفند یار ولی پارٹی کے صدر بنے ان کی وفات کے بعد اب ان کے بیٹے پارٹی کے سربراہ ہیں۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے انس نورانی پارٹی کے سربراہ بنے ہیں۔ اب لے دے کے تحریک انصاف رہ جاتی ہے جس کے بارے میں اب تک تو یہ تاثر ہے کہ یہ خاندانی پارٹی نہیں ہے، لیکن جس طرح بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ اور بہنوں کی فعالیت نظر آرہی ہے اور جس طرح عمران خان کے ساتھ بشریٰ بی بی بھی جیل کی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں اس سے بعض لوگ یہ خیال ظاہر کررہے ہیں کہ آگے چل کر یہ بھی خاندانی پارٹی بن جائے گی۔ جماعت اسلامی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں میں آمریت قائم ہے کہ جو سربراہ نے کہہ دیا وہی پتھر کی لکیر ہے آصف زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان جو کہہ دیں گے اسی پر سب کو عمل کرنا ہوگا اس لیے کہ ان پارٹیوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں بس یہ ملک میں جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ اگر پارٹی کا سربراہ کہتا ہے کہ آگے آجائو تو سب آگے ہو جائیں گے اور اگر وہ کہتا ہے کہ پیچھے ہوجائو تو سب پیچھے ہو جائیں گے۔ چاہے ان کی جماعت میں بڑے بڑے نامور وکلا ہی کیوں نہ ہوں یہی وکلا جب جج کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں بڑے دلائل سے بات کرتے ہیں لیکن اپنی جماعت کے سربراہ کے سامنے خاموش رہتے ہیں وہاں کوئی دلیل نہیں چلتی۔

مالاکنڈ کے پی ٹی آئی کے ایم این اے جنید اکبر کو پہلے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا اور اب انہیں کے پی کے میں تحریک انصاف کا صدر بنادیا گیا اور علی امین گنڈا پور سے یہ منصب واپس لے لیا گیا۔ ایک تجزیہ نگار نے لکھا ہے کہ عنقریب ان سے وزارت اعلیٰ کا عہدہ بھی لے لیا جائے گا اور مردان سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کو کے پی کے کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا۔ بہرحال جو فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہوگا وہی اٹل ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے لیے جنید اکبر سے اور اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے لیے علی امین گنڈا پور سے کام لیا جائے گا۔ ایک خبر یہ بھی ہے علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کے درمیان شدید اختلافات ہیں اور جب بشریٰ بی بی کو سزا سنائی گئی تو وزیر اعلیٰ ہائوس میں جشن مسرت منایا گیا۔ اب دیکھتے ہیںکہ مستقبل قریب میں پنجاب کی تحریک انصاف میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

کچھ چھوٹی چھوٹی خبریں اور بھی صارم قتل کیس کا معمہ اب تک حل نہ ہوسکا لاش کئی دن پانی میں رہی اس وجہ سے ڈی این اے رپورٹ ٹھیک نہیں آئی اب دوبارہ ڈی این اے کیا جائے گا۔ انڈیا کا ایک گانا ہے کہ آگرے کا لالا انگریجی دلہن لایا رے۔ گارڈن کے علاقے میں ایک امریکی دلہن دولہے کی دعوت پر امریکا سے کراچی آگئی تو دولہا گھر چھوڑ کر بھاگ گیا بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ لے گیا۔

ائر پورٹ پر پولیس حکام واپس امریکا جانے کے لیے اس کی منت سماجت کررہے ہیں لیکن وہ پیا دیس چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک اور دل خوش کن خبر یہ ہے کہ امریکی عدالتی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا ہے کہ پاکستانی نژاد خاتون جج نے ٹرمپ آرڈر پر عملدرآمد روک دیا۔ خبریں تو اور بھی ہیں لیکن مضمون لمبا ہوجائے گا۔