باادب باملاحظہ ہوشیار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق صدر مملکت کو ان کے دور خلافت (صدارت) میں عدالتی استثنیٰ حاصل ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی توشہ خانہ ریفرنس اور ٹھٹھہ واٹر ریفرنس کی کارروائی بھی اسی لیے موخر کر دی گئی یہ استثنیٰ صدر کے علاوہ اور بھی بہت سے معززین کو حاصل ہے 73 کا متفقہ آئین (جو 26 ویں ترمیم کے بعد غیر متفقہ بن چکا ہے) اسلامی دفعات سے لبریز ہے جنہیں جان کر یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے یا یہ اسلامی ملک کا آئین ہے اگر ان دفعات پر مکمل عمل درآمد کر لیا جاتا تو یہ یقینا اسلامی جمہوری ملک ہوتا مگر ہوا کچھ یوں کہ جمہوریت کے ساتھ ہی اسلام بھی اسلام آباد منتقل ہو گیا اور پھر جمہوریت پسند جماعتوں نے جمہوریت کا بھی بیڑا غرق کر دیا جب یہ اقتدار میں ہوتی ہیں تو ریاست کو خطرہ ہوتا ہے اور جب یہ مخالفت میں جاتی ہیں تو جمہوریت ہی خطرے میں چلی جاتی ہے اور اسی ٹکراؤ میں اسلامی نظام کی بنیاد بھی نہیں رکھی جا سکی گرچہ آئین کے مطابق ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور ملک میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی مگر صورت حال یہ ہے کہ ہم برس ہا برس سے حالت جنگ میں ہیں اور جنگ بندی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اعلان جنگ ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ۔
آئین کہتا ہے کہ صدر اور وزیراعظم کا مسلمان ہونا ضروری ہے مسلمان تو ہیں مگر چال ڈھال رہن سہن لباس سے مسلمان نہیں لگتے ابھی حال ہی میں صدر صاحب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو وہ سوٹ بوٹ میں ملبوس تھے اور حلف لینے والے چیف جسٹس تو ہوتے ہی ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ قرآن اور سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور علماء کرام پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل قائم کی جائے گی جو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے کسی بل پر مشورہ دے گی کہ وہ اسلامی اصولوں کو مطابق ہے یا نہیں صرف مشورہ دے گی وہ بھی اگر ان سے مانگا گیا تو اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ جب ایک ہندو رکن قومی اسمبلی نے شراب پر پابندی کابل قومی اسمبلی میں پیش کیا تو ا سے مسلمان ارکان اسمبلی نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا کہ پینا حرام ہے پلانا حرام نہیں۔ یہ احوال تھا ارکان قومی اسمبلی کا جن کو عوام نے منتخب کیا اور اب ذکر کرتے ہیں ایسے ارکان کا جن کو عوام پر مسلط کیا گیا ان کو اراکین سینیٹ کہا جاتاہے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق پاکستان میں 2019 تا 2023 کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 5398 واقعات رونماء ہوئے ہیں جن میں پڑھے لکھے پنجاب میں 3323 یعنی 60 فی صد واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ (جن کی رپورٹ نہیں ان کی کوئی گنتی نہیں) جبکہ شہر اقتدار پنجاب لاہور میں 1176 واقعات کا اندراج کرایا گیا ہے۔ سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے ممتاز اور محترم رکن مشتاق احمد خان نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سرعام پھانسی سے لوگ عبرت پکڑیں گے اگر وفاق اور چاروں صوبائی حکومتوں میں صرف ایک ایک شخص کو سرعام پھانسی دے دی جائے تو چھٹی پھانسی کی ضرورت نہیں پڑے گی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد ایوان جناب اسحاق ڈار فرماتے ہیں کہ سر عام پھانسی کا بل کسی طرح سے بھی مناسب نہیں سرعام پھانسی نہیں ہونی چاہیے بل کی مخالفت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی ارب پتی بلکہ کھرب پتی سینیٹر (ان کے گھر سے 97 ارب روپے کیش برآمد ہوئے تھے) محترمہ شازیہ مری نے ایک نئی منطق پیش کی کہ سرعام پھانسی سے درندگی اور تشدد کی سوچ میں اضافہ ہو گا اس سے جرم رکے گا نہیں بلکہ معاشرے میں دیگر اثرات مرتب ہوں گے اس کے برخلاف سینیٹر ہمایوں مومن نے کہا کہ جو شخص بھی ایک بار سرعام پھانسی دیکھ لے گا تو وہ جرم کرتے وقت سوچے گا ضرور، جہاں سرعام پھانسی کا قانون نافذ ہے وہاں پر جرائم کی شرح کم ہے۔ کافی لفاظی کے بعد بالآخر ایوان نے اس بل کو بھی کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ یہ ہے ہمارے ایوان نمائندگان کی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محبت کا اظہار اور اب آتے ہیں آزاد عدلیہ کی طرف کیونکہ آج ہماری عدلیہ جتنی آزاد ہے پہلے نہ تھی اسلام نے عورت کو جتنا تحفظ اور حقوق دیے ہیں۔ آج کی مغرب زدہ عورت اسے نا کافی سمجھتی ہے چنانچہ وہ نئے قسم کے حقوق حاصل کرنے کے لیے مارچ کرتی نظرآتی ہے جس کا سلوگن ہے میرا جسم میری مرضی جو ایک اسلامی معاشرے پر بدنماداغ ہے ایک شہری نے لاہور ہائی کورٹ میں عورت مارچ پر پابندی کی درخواست دائر کی تو اسے مسترد کر دیا کہ جب عدلیہ آزاد ہے تو عورت کی آزادی پر کیسے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ حال ہی میں سندھ اسمبلی نے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق اب بچوں کا ڈبوں کا دودھ بغیر ڈاکٹری نسخے کے نہیں دیا جائے گا اگرچہ یہ فیصلہ درست ہے مگر بہت تاخیر ہو گئی اب تو ہیومین ملک بینک کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے اس کے ساتھ ہی حلالہ سینٹر بھی کھل گئے ہیں اگر چہ یہ دونوں کاروبار شرعی اور قانونی طور پر ممنوع ہیں مگر پھر بھی بڑے بڑوں کی سرپرستی میں یہ کاروبار در پردہ چل ہی رہے ہوں گے یہ تمام حقائق بتاتے ہیں کہ اسلام کو اسلام آباد میں آباد ہونے سے روکنے کے لیے کنٹینر لگا رکھے ہیں جبکہ جمہوریت بھی بچہ جمہورہ بن چکی ہے یہ سب مغرب کی چالیں ہیں مگر ان سب کے باوجود بھی ایک دن یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بن کر رہے گا کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ قائم ہی رہے گا۔