قیامت کے وقت میں ایک سیکنڈ مزید کم ہوگیا، دنیا کی تباہی قریب آگئی

270

شکاگو:دنیا میں مثبت اور منفی حالات اور ان کے اثرات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا تباہی کے مزید قریب ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے قیامت کے (تصوراتی)وقت میں مزید ایک سیکنڈ کم کردیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ڈُومز ڈے کلاک (Doomsday Clock) جسے قیامت کی گھڑی بھی کہا جاتا ہے، کو عالمی سطح پر تباہی کے خطرات کی  علامت تصور کیا جاتا ہے، جو رواں برس ایک سیکنڈ کم ہوکر 90 سے 89 پر آ گئی ہے، جس کا مطلب یہ بتایا گیاہ ے کہ دنیا پہلے کے مقابلے میں تباہی کے ایک سیکنڈ مزید قریب ہو گئی ہے۔

قیامت کی گھڑی کے نام کا یہ کلاک اصل وقت تو ظاہر نہیں کرتا، تاہم یہ تصوراتی طور پر دنیا کو درپیش جوہری، حیاتیاتی، موسمیاتی اور ٹیکنالوجی سے متعلق خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کی مقررہ سیٹنگ کے مطابق اگر یہ کلاک رات 12 بجے (نصف شب) پر پہنچ جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ دنیا کسی تباہ کن واقعے کا شکار ہو چکی ہے جب کہ اس وقت قیامت کی یہ گھڑی 11:58:31 پر سیٹ ہے، یعنی نصف شب میں صرف 89 سیکنڈز باقی ہیں۔

یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈیپارٹمنٹ آف فزکس کے پروفیسر نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ جوہری خطرات، مصنوعی ذہانت، موسمیاتی تبدیلی، اور عالمی تنازعات کے باعث قیامت کی گھڑی کو مزید آگے بڑھایا گیا ہے۔یہ گھڑی 1947 میں جوہری سائنسدانوں نے بنائی تھی تاکہ دنیا کو ممکنہ تباہی کے خطرات سے آگاہ کیا جا سکے اور 2023 میں یہ گھڑی 90 سیکنڈ پر تھی جس کے بعد 2024 میں اسے مزید ایک سیکنڈ آگے بڑھا کر 89 سیکنڈ پر کر دیا گیا۔

حیران کن طور پر 1991 میں امریکا اور سوویت یونین کے جوہری معاہدے کے بعد اس گھڑی کو 17 منٹ پیچھے لے جایا گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق قیامت کی گھڑی کے مزید پیچھے آنے کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:

روس-یوکرین جنگ

اسرائیل-فلسطین تنازع

موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے اثرات

مصنوعی ذہانت کی غیر منظم ترقی

سوشل میڈیا پر غلط معلومات کا پھیلاؤ

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی سطح پر مثبت اقدامات کیے جائیں، جیسے جنگوں کا خاتمہ، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی حکمت عملی اور جوہری ہتھیاروں میں کمی وغیرہ،  تو قیامت کی گھڑی کو پیچھے لے جانا ممکن ہے۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اگرچہ یہ گھڑی کسی مستقبل کی پیش گوئی تو نہیں کرتی، لیکن اسے ایک انتباہ کے طور پر ضرور سمجھنا چاہیے کہ دنیا کو بڑے بحرانوں سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کتنے ناگزیر ہیں۔