ارکانِ اسمبلی کی تنخواہ ومراعات میں اضافہ!

174

جب پورا ملک بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہو، عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہوں اور مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہو، ایسے میں ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں 140 فی صد اضافہ، کیا انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کی باز گشت ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔ ایک طرف عام آدمی اپنی ر وز مرہ کی ضروریات کی عدم تکمیل پر نفسیاتی عذاب کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب حکمران طبقہ ہے جس کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کا نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے۔ خبر آئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 140 فی صد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنی سفارشات وزیر اعظم جناب شہباز شریف کو ارسال کردی ہیں، ارکان ِ اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہ و مراعات پانچ لاکھ انیس ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے، اس حوالے سے فنانس کمیٹی نے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردی ہیں، واضح رہے کہ وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں، اس اضافے سے ارکانِ پارلیمنٹ کی سہولتیں بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی ہو جائیں گی، قبل ازیں پنجاب اسمبلی نے بھی ارکان اسمبلی کی تنخواہ 76 ہزار سے بڑھا کر 4 لاکھ کردی ہے۔ 83 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والے پارلیمانی سیکرٹری اب 4 لاکھ 65 ہزار روپے تنخواہ وصول کریں گے، جبکہ ارکانِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں میں کیا گیا یہ اضافہ ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ پر لاگو ہوتا ہے، جبکہ انہیں حاصل ہونے والے ٹی اے، ڈی اے، مفت طبی سہولت، رہائش اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ بل کی منظوری کے بعد ارکانِ پارلیمنٹ کو وفاقی سیکرٹری کے برابر سہولت حاصل ہوں گی، المیہ یہ ہے کہ ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ دس لاکھ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر بھلا ہو اسپیکر ایاز صادق کا جنہوں نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی یہ دلیل دی گئی کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہ کم ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی اور اس کی فیملی کو علاج معالجے کی مفت سہولت کے علاوہ پورے سال جاری رہنے والے اسمبلی میں اجلاس میں شرکت کے لیے ٹی اے، ڈی اے کی مد میں بھی خطیر رقم دی جاتی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس ’’کارِ خیر‘‘ میں حصہ لینے کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیوں کر پیچھے رہتا، اس ادارے نے بھی بلاجھجھک مطالبہ کیا ہے کہ اسے اپنے افسران کے لیے 6 ارب مالیت کی 1010 گاڑیاں دی جائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مہنگائی کی شرح کو دیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے حوالے سے اسمبلی میں کوئی بل پیش کیا جاتا اس کے برخلاف اپنی ہی مراعات میں اضافہ کروا کے عملاً قوم کو یہ پیغام دیا گیا کہ جنہیں وہ اپنا مسیحا، ہمدرد و خیرخواہ سمجھتے ہیں وہ قطعاً ایسے نہیں انہیں عوامی مشکلات اور مسائل کے حل سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک ایسا ملک جس پر 120 ارب ڈالر سے زاید کے بیرونی قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہو، جس ملک کا عام شہری تک اس قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو، جہاں مہنگائی کی شرح آسمان کو چھو رہی ہو، جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہو، 40 فی صد سے زاید افراد خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں، جس ملک کی شرح خواندگی فخر کے قابل نہ ہو، جہاں ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول نہ جا پاتے ہوں، جہاں بے روزگاری کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں 12 لاکھ 78 ہزار نوجوان بہتر روزگار کے لیے ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جاچکے ہوں، جہاں 96 فی صد شہری اور 89 فی صد دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہ ہو، جہاں باپ اپنے بچوں کی خواہشات نہ پوری کرنے کی وجہ سے موت کو گلے لگا رہا ہو، بچے فروخت کیے جارہے ہوں۔ خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہو، مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہو، غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترستے ہوں، وہاں کے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں شاہانہ اضافہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ حکومتی ارکان اور عوامی نمائندوں کو عوامی مسائل و مشکلات کی قطعاً پروا نہیں، ان کی بلا سے کوئی مرے یا جیے! لطف کی بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والے، ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے آرزو مند، اور ملک میں ’’انصاف‘‘ کا بول بالا کرنے کا عزم رکھنے والوں نے مراعات کے حصول کے لیے اپنے اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پیج پر نظر آئے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے وقت کوئی عار محسوس نہیں کی، نہ انہیں عوام یاد آئے نہ عوامی مسائل، اپنی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کرانے والوں نے عوام کا نہیں سوچا اور نہ ہی انہیں اس بات کی فکر ہے کہ پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کی کس گہری کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ ارکانِ اسمبلی مالی آسودگی پانے کے بعد عوامی مسائل و مشکلات کے لیے یکسو ہو جائیں گے اور ان مراعات کے بعد عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے وہ میدان ِ عمل میں کود پڑیں گے! بل منظور کرانے والوں نے پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا ہے، انہوں نے نہ عوام کی معاشی مشکلات کا خیال کیا نہ ہی اپنے اْس حلف کا پاس رکھا جس میں درج تھا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قومی و عوامی مفادات پر ترجیح دیں گے۔ یہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ عوامی مسائل کو حل کرنا نہ حکومت کی ترجیح ہے نہ ان سیاسی جماعتوں کی جو عوام کو سبز باغ دکھاکر ایوان تک پہنچتی ہیں، آج عوام کس صورتحال سے دوچار ہیں، انہیں کن معاشی مشکلات کا سامنا ہے؟ کوئی نہیں جو عوام کے لیے سوچے اور گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسے عوام کے لیے کچھ کرے۔ حکومت نے ایک مزدور کی جو تنخواہ مقرر کی ہے کیا وہ تنخواہ ایک مزدور اور اس کے خاندان کے لیے کفالت کا باعث ہے؟ کیا اسے ملنے والی تنخواہ میں کوئی میں اقتصادی جادوگر چار پانچ افراد پر مشتمل خاندان کا بجٹ بنا سکتا ہے؟۔ ایک جانب کفایت شعاری کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب اس نوع کے اقدامات کیے جاتے ہیں جن سے عوام میں سخت مایوسی اور بددلی پھیل جاتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے نزدیک ملک کو درپیش معاشی بحران کی اہم وجہ ہی شاہانہ اخراجات اور موجود وسائل کے درمیان توازن کو نہ ہونا ہے۔ پیش آمدہ صورتحال کے تناظر میں یہ صرف جماعت ِ اسلامی ہی ہے جس سے وابستہ ارکان پارلیمنٹ خواہ وہ کسی بھی سطح کے ہوں نے مراعات کی آلائشوں سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیا اور ملکی وسائل کو ذاتی مفاد میں استعمال سے گریز کرکے پارلیمانی سیاست میں امانت و دیانت کی لازوال مثال قائم کی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ملک کی اقتصادی حالت جس ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے اور جس طرح سے عوامی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اقدامات کیے جا رہے ہیں اس سے نجات کی کوئی صورت اس کے علاوہ نہیں ہے کہ عوام انتخابات کے موقع پر ان گندم نما جو فروشوں کے چہرے یاد رکھیں اور اپنا ووٹ ایسے افراد اور جماعت کے حق میں استعمال کریں جو خدمت اور دیانت کا شعار رکھتے ہوں۔