عافیہ میری بہن اللہ کی امان میں

274

جب مجھے صدر بائیڈن کی طرف سے سزا کی معافی کی پٹیشن نامنظور ہونے کی دل شکن خبر ملی تو میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ عافیہ کا ہاتھ پکڑ لوں، اسے مضبوطی سے اپنی آغوش میں جکڑ لوں اور بس وہیں بیٹھ کر اس کے درد کو اپنی روح میں جذب کرلوں۔ میری معصوم چھوٹی بہن کی تصویر، اس کی آنسوؤں سے بھری نم آنکھیں جب میں اسے ایک بار پھر الوداع کہہ رہی ہوں، اسے ایک بار پھر ناانصافی کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ کر آنے سے، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا ہے جو کہ مجھے پریشان کر رہا ہے۔ میں بس اسے سینے سے لگا کر رونا چاہتی ہوں۔

میں دنیا سے چلا چلا کر کہنا چاہتی ہوں، ’’کیا تم اندھے ہو؟‘‘، ’’کیا تم بہرے ہو؟‘‘، ’’کیا تم گونگے ہو؟‘‘ کیا تم کو ناانصافی، ظلم، جبر، زیادتی نظر نہیں آتی؟ لیکن کیا بات ہے؟ دنیا ایک ایسی جگہ بن گئی ہے جہاں مالدار آئیکونز اور کارپوریشنز حکومت کر رہی ہے، بڑے لوگ چھوٹوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔ انسانی جانوں کی تباہی کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے؟ ان اشرافیہ میں سے کسی کو پروا نہیں۔

عافیہ میری بہن تجھے اللہ کی امان میں چھوڑ کر جا رہیں ہوں۔ اللہ کی مدد اور قوم کی حمایت سے تجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے جلد واپس آؤں گی۔ ان شاء اللہ

پاکستانی ہونے کے ناتے میں سنتی رہتی ہوں کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں، یہاں انصاف نہیں ہے، خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ آج ایک اور آنکھیں کھولنے والا دن تھا۔ عافیہ ایک عورت ہے۔ اس کے ساتھ امریکا زیادتی کر رہا ہے، عافیہ کے ہی نہیں امریکا نے اپنے ہی کمسن بچوں (واضح رہے عافیہ کے دونوں بچے پیدائشی امریکی ہیں) تشدد کیا ہے۔ اس کی معافی کی درخواست، جو سب سے زیادہ منظور کیے جانے کی مستحق تھی، مسترد کر دی گئی، جب کہ جن دوسرے لوگوں کو رہا کیا گیا تھا، انہوں نے وہ جرائم کیے تھے جن کا ان پر الزام تھا۔ عافیہ بے قصور ہے، اس کے باوجود خود کو حقوق نسواں کا علمبردار کہنے والے سیاست دان اور صدر اپنی ہی زیادتیوں اور مظالم پر آنکھیں بند کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نوٹ: ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے درج بالا سطور امریکا سے روانگی سے تھوڑی دیر پہلے تحریر کیں۔