لاس اینجلس میں لگی آگ کی راکھ ابھی صاف بھی نہ ہوپائی تھی کہ سیمابی طبیعت کے حامل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو غزہ کی صفائی کا خیال ستانے لگا، ان کی خواہش ہے کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک مزید فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن کو قائم کیا جاسکے، اس ضمن میں انہوں نے اردن کے شاہ عبداللہ سے بات بھی کرلی ہے جب کہ مصری صدر سے بھی رابطے کے خواہش مند ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، ہم اس سارے معاملے کو صاف کررہے ہیں، میں پوری غزہ پٹی کو دیکھ رہا ہوں، یہاں سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، اس بیان کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اسرائیل کو دو ہزار پاؤنڈ وزنی بم فراہم کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی ہے، دوسری جانب امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے اطلاع دی ہے کہ امریکا غزہ کے باشندوں کی بڑی تعداد انڈونیشیا منتقل کرنے پر غور کررہا ہے، دریں اثناء امریکی وزیرخاجہ مارکو روبیو نے انڈونیشیا کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کا حصہ بننے پر اظہارِ مسرت کیا، مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ اسرائیل کے لیے امریکا کی حمایت برقرار رکھنا ٹرمپ انتظامیہ کی پہلی ترجیح ہے، ٹرمپ کے اس بیان پر اسرائیلوں کے مرجھائے ہوئے چہرے کھل اٹھے ہیں، خوشی سے ان کے دل باغ باغ ہیں، نیتن یاہو نے اسرائیل کی دفاع کے لیے حمایت پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے بھی بیان کا خیر مقدم کیا۔ اس صورتحال پر مصر کی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی بھی عمل کو مسترد کردیا ہے، اردن کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اردن فلسطینیوں کی نقل مکانی کو مسترد کرتا ہے اور اس عزم میں ہم ثابت قدم اور غیر متزلزل ہیں، فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی ایسے کسی بھی منصوبے کی سختی سے تردید اور مذمت کی ہے جس سے غزہ کے باشندوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جائے، حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے کا کہنا ہے کہ ہم تعمیر نو کی آڑ میں ایسی کسی تجویز کو منظور نہیں کریں گے، ہم نے 15 ماہ تک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے کیا ہے، ہم نے موت اور تباہی تک کو برداشت کیا، ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان اطلاعات پر غزہ کے باشندوں نے بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم خود اپنی تقدیر کا فیصلہ کریں گے، یہ ہمارے آباؤ اجداد کی ملکیت ہے، ہم اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے، سوائے اس کے کہ ہمیں مردہ حالت میں یہاں سے لے جایا جائے، ماضی میں بھی ہمیں اپنی مقدس سرزمین سے بے دخل کرنے کی سازش کی گئی اب پھر کی جارہی ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد غزہ میں اچانک جنگ بندی پر کئی حلقے اس امر کے منتظر تھے کہ ’’دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا؟‘‘ بادی النظر میں یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ فلسطین اور یوکرین سمیت ہر اس خطے میں امن کے قیام کے لیے کوشش کریں گے جہاں جنگ جاری ہے مگر جو حقائق و عزائم سلسلہ وار منظر پر عام آرہے ہیں، اس نے اس امید پر پانی پھیر دیا ہے، یوں تو فلسطینیوں کو بے گھر کرکے پورے فلسطین پر قبضہ کرنے کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے تاہم غزہ جنگ کے فوری بعد بھی اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نہ بھی کیا جاتا تب بھی غزہ پر اسرائیل کسی صورت حملے سے باز نہیں آتا، اب ایک بار پھر اس خدشے کے عملی مظاہر نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اسرائیل غزہ کو اس کے ساحلی گیس کے وسائل کی وجہ سے مکمل طور پر خالی کرانے کا خواہش مند ہے، جب اس خواہش کی بیل کسی طور منڈھے نہ چڑ ھ سکی تو اس نے 8 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کو جواز بنا لیا، ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جان بوجھ کر انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا گیا، پے درپے بمباری کے ذریعے اسپتالوں اور رہائشی مکانوں کو ملیا میٹ کیا گیا، رائٹ آف سیلف ڈیفنس کے نام پر غزہ کو عملاً کھنڈرات میں اسی لیے تبدیل کیا گیا کہ غزہ کسی طور رہائش کے قابل نہ رہ سکے اور غزہ کے باشندے غزہ خالی کردیں اور اسے اپنے عزائم کی تکمیل کا موقع مل سکے، بد قسمتی سے امریکی انتظامیہ اسرائیل کے ان عزائم اور منصوبوں کی ہمرکاب ہے، غزہ پر اسرائیل کی بے پناہ بمباری اور اب ٹرمپ کے حالیہ عزائم اس امر کی حقیقت پر دال ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے ارشادات انہی منصوبے کا حصہ ہیں، اس صورتحال کو غزہ کے ساحلی علاقوں میں موجود قدرتی گیس کے وسیع ذخائر سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا، فلسطین کے ساحل سے تقریباً 36 کلومیٹر مغرب میں بحیرۂ روم میں واقع ایک قدرتی گیس کا ذخیرہ ہے، یہ ذخیرہ فلسطینی علاقوں میں دریافت ہونے والا پہلا گیس فیلڈ ہے، جو غزہ کی پٹی کے قریب ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کے توانائی کے میدان میں ایک اہم اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کا ذخیرہ 1.1 ٹریلین کیوبک فٹ گیس پر مشتمل ہے، جو بیس سال تک سالانہ 1.5 بلین مکعب میٹر گیس فراہم کر سکتا ہے۔ گیس کے یہ ذخائر سالانہ 30 کروڑ ڈالر کی آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اور غزہ میں جب تک حماس موجود ہے اسرائیل اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا تاہم اسرائیل، امریکا اور مغرب کے جو بھی عزائم ہوں، فلسطینیوں کے حق ِ خودارادیت پر کسی طور خط ِ تنسیخ نہیں پھیرا جاسکتا اور نہ ہی زور بردستی غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جاسکتا ہے، اردن سے کہا جارہا ہے کہ وہ غزہ کے باشندوں کو اپنے یہاں پناہ دے جب کہ بائیس لاکھ فلسطینی پہلے ہی وہاں پناہ گزین کمیپوں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ لبنان، شام، مصر، سعودی عرب، کویت، قطر، ترکی اور دیگر ممالک میں لاکھوں فلسطینی بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے پہلے ہی ہفتے جس نوع کے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں اس سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی پر مبنی امریکا کی تباہ کن خارجہ پالیسی جوں کی توں برقرار رہے گی اور ٹرمپ بھی صہیونی قیادت کی زلفِ گرہ گیر کے اسی طرح اسیر رہیں گے جس طرح ان کے پیش رواسرائیلیوں پر فریفتہ تھے، جو مہلک بم، بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو دینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ اس سے انسانی المیہ جنم لے گا، اسرائیلی محبت میں وہ مہلک بم بھی اسرائیل کو فراہم کردیے، اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں تاریخ میں انہیں امن قائم کرنے والے کے طور پر یاد رکھا جائے مگر حالیہ بیان کسی طور بھی ان کی اس خواہش سے ہم آہنگ نہیں، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی قانون اور جنیوا کنونشن کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے سے وہاں کے باشندوں کی جبری بے دخلی جنگی جرم اور بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے، فلسطینی باشندے کسی بھی قیمت پر ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، 15 ماہ تک غزہ کے عوام نے اپنے عزم، ہمت اور استقامت سے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ غزہ تو کیا اس کی ایک انچ زمین سے بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، فلسطینی عوام کے احساسات و جذبات کی علی الرغم جارح قوت کو روکنے کے بجائے مظلوم فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے عزائم جلتی پر تیل چھڑنے کے مترادف ہیں، یاد رکھنا چاہیے کہ تیل چھڑک کر آگ لگانے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا، امریکا اور مغرب کا یہی وہ دہرا طرز عمل ہے جس کے رد عمل کو دہشت گردی پر محمول کیا جاتا ہے۔