امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کا سہرہ رخصت ہوتے ہوئے صدر جوبائیڈن سے چھین کر اپنے سر سجا لیا ہے۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ خود کو اس جنگ بندی کا محرک قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ صدر نہ بنتے تو غزہ میں جنگ بندی ممکن نہ ہوتی۔ اگرچہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوئی تو اس وقت جوبائیڈن ہی وائٹ ہائوس میں اپنی آخری گھڑیاں گزار رہے تھے مگر اس وقت ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں داخل ہونے میں چند ہی دن باقی تھے۔ اس سے پہلے ٹرمپ جنگ بندی نہ ہونے کی صورت میں خوفناک نتائج کی دھمکیاں بھی دے چکے تھے۔ جس میں ایک دھمکی یہ تھی اگر ان کے حلف اُٹھانے سے پہلے جنگ بندی نہ کی گئی تو وہ مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیں گے۔ ٹرمپ غزہ جنگ بندی کی فتح اپنی قلغی میں سجانے میں اس حوالے سے حق بجانب ہیں کہ جو کام بائیڈن پندرہ ماہ میں نہیں کر سکے وہ ٹرمپ نے پندرہ دن میں کر دکھایا۔ سابق اسرائیلی وزیر اعظم یہود المرٹ نے بھی انکشاف کیا کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو پر دبائو ڈال کر غزہ میں جنگ بندی کرائی۔ ٹرمپ کے ایک سابق مشیر اسٹینیو بینٹ نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی دھمکی حماس کے لیے نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے تھی۔ اس بات میں خاصا وزن بھی ہے کیونکہ حماس تو پہلے ہی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کو تیار تھی مگر اسرائیل آخری فتح اور تمام مقاصد پورے ہوئے بغیر جنگ بندی سے انکاری تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس معاہدے پر اسرائیل نے اب عالم ِ مجبور ی میں دستخط کیے یہ وہی معاہدہ ہے جو دسمبر 2023 میں قطر اور مصر نے جنگ کے دوماہ بعد ہی تیار کیا تھا مگر اسرائیل اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا اور جوبائیڈن پانچ ماہ تک اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کرتے رہے۔ تیرہ ماہ بعد یہی معاہدہ اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑا تو اس میں جو بائیڈن کی کوشش اور کاوش کا کوئی دخل نہ ہونا واضح ہوتا ہے۔ اس لیے غزہ جنگ بندی نے وقتی طور پر ٹرمپ کا امیج مشرق وسطیٰ میں ایک جنگجو اور جنگ پسند عالمی راہنما کے بجائے ایک امن پسند اور امن پرور لیڈر کا بنایا ہے۔ اس اعتماد سے سرشار ڈونلڈ ٹرمپ کیا بل کلنٹن کی طرح امن کی راہوں پر اپنا سفر مزید جاری رکھیں گے؟
اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے بعد یوکرین کا مسئلہ بھی ٹرمپ کو درپیش اہم ترین چیلنج ہے۔ ٹرمپ یوکرین کی جنگ کا بوجھ امریکیوں کے کندھوں سے اُتار کر یورپ کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ لاتعداد معاشی بحرانوں میں گھرے یورپ میں اپنے طور پر اس جنگ کو طویل المدت تک جاری رکھنے کی سکت دکھائی نہیں دیتی۔ اس طرح ٹرمپ اس جنگ سے ہاتھ کھینچ کر عملی طور پر فریقین کو امن کی راہ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا ٹرمپ کی صلاحیتوں کے لیے اسی طرح ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ جنوبی ایشیا میں دو روایتی حریف ممالک پاکستان اور بھارت کئی برس سے تعلقات منجمد کیے بیٹھے ہیں۔ کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں میں سفارتی تعلقات کا درجہ گر گیا تھا وہ برسوں بعد بھی دوبارہ بحال اور بلند نہیں ہوسکا۔ بھارت اپنے تئیں مسئلہ کشمیر کو حل سمجھے مگر کشمیر کے سکوت اور سکون کی تہہ میں کئی آتش فشاں پل رہے ہیں۔ بھارت جس طرح کشمیر کی صدیوں پر محیط مسلم اور کشمیری شناخت کو بدلنے اور مسخ کرنے کی راہ پر چل رہا ہے وہ جنوبی ایشیا میں بنگلا دیش سے زیادہ عوامی ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کے حکمران لاکھ مصلحت پسند اور لچکدار اور دبائو قبول کرنے کے خوگر سہی مگر عوامی جذبات انہیں تادیر انہیں یک طرفہ طور پر بچھے جانے اور امن کا ویران اور خالی ٹھیلہ لیے پھرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چار وناچار یہاں بھی امریکا کو پاک بھارت حالات اور تعلقات کی نارملائزیشن کے لیے ہی سہی مگر متوجہ ہونا پڑے گا۔ گوکہ انہیں مشرق وسطیٰ میں نیتن یاہو جیسے خود سر اکھڑ اور ضدی شخص کی طرح نریندر مودی جیسے انانیت پسند اور کٹر پنتھی اور اڑیل دوست کا سامنا ہو سکتا ہے جو پاکستان کو خاطر میں لانے پر تیار نہیں لیکن یہاں بھی ٹرمپ نیتن یاہو کی طرح پیچ کسنے کا طریقہ اپنا سکتے ہیں۔ خود اسرائیلی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس بار ٹرمپ کے بدلے ہوئے لہجے کے باعث نیتن یاہو ہکا بکا رہ گئے اور انہیں چار وناچار اپنی انا کی قربانی دے کرجنگ بندی کا ایسا معاہدہ کرنا پڑے جسے اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزائل سموٹرچ نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے تباہ کن قرار دے کر استعفے کی دھمکی دی تھی۔
ٹرمپ کے سر میں ایک امن پسند عالمی لیڈر بننے کا جو سودا سمایا ہے اس میں ماضی کے ان کے بہت سے جنگجو دوست نیتن یاہو کی طرح حیران وششدر رہ سکتے ہیں۔ ٹرمپ اپنے لیے امن دوست کا امیج پسند کرتے ہیں تو نوے کی دہائی کے امریکی صدر بل کلنٹن کا راستہ ہوگا جو خلیج کی پہلی جنگ کے بعد امریکا کے صدر بنے اور انہوں نے اپنے لیے دنیا کے تین خطوں کو درپیش سنگین مسائل کے حل کو ہدف بنالیا۔ ان میں پہلا مسئلہ مشرق وسطیٰ، دوسرا شمالی آئرلینڈ اور تیسرا پاک بھارت تنازع کی جڑ کشمیر تھا۔ کلنٹن کے دور میں تینوں مقامات پر مسائل کے حل کے لیے خفیہ سفارت کاری کا یا تو آغاز ہوا یا اس عمل میں تیزی لائی گئی۔ اس عمل میں انہیں پہلی کامیابی فلسطین اسرائیل کے درمیان 1993 میں معاہدہ اوسلو کی صورت میں ملی جس میں فلسطینیوں کو ایک لاکل اتھارٹی حاصل ہوئی اور یاسر عرفات ایک عسکری ماضی سے کٹ کر سیاسی اور حکومتی رول کے ساتھ سامنے آئے۔ اس معاہدے کے وقت بل کلنٹن بنفس نفیس یاسر عرفات اور اسحاق رابن کے پیچھے فاتحانہ مسکراہٹ لیے کھڑے تھے۔ چند ہی برس کلنٹن کو دوسری کامیابی شمالی آئرلینڈ میں آئرش ری پبلکن آرمی اور برطانوی حکومت کے درمیان معاہدے کی صورت میں حاصل ہوئی جہاں یاسر عرفات کی ہی طرح آئرش لیڈر جیری آدم نے عسکریت کو ترک یا فریز کرتے ہوئے سیاسی دھارے میں شامل ہونا قبول کر لیا اور 1998 میں کلنٹن اپنا دوسرا ہدف مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جنوبی ایشیا میں بھی پس پردہ سفارت کاری کے نتیجے میں وہ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرنے پر آمادہ ہوئے کہ انہیں مسئلہ کشمیر کو ’’ونس فار آل‘‘ کے اصول کے تحت حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے بہت سمجھ کر پاکستان کے اس وقت کے مضبوط لیڈر میاں نوازشریف سے ذاتی مراسم پیدا کیے کیونکہ انہیں بتایا گیا تھا کہ فوج کے اصل حلقہ اثر یعنی پنجاب یا جی ٹی روڈ میں مقبول لیڈر ہی زیادہ جرأت مندانہ اور بڑے فیصلے کر سکتا ہے۔ کلنٹن کی ہلہ شیری سے نوازشریف اور واجپائی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے تھے مگر کارگل کی جنگ نے اس ڈپلومیسی کی ساری بساط ہی اُلٹ ڈالی اور حالات اس شعر کی مانند ہو کر رہ گئے
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
یوں کلنٹن جنوبی ایشیا میں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور انہیں اس بات کا احساس رہا کہ نوازشریف نے ان کی بات کو مان کر بھاری قیمت چکائی ہے اور اسی لیے کلنٹن نے انہیں قید سے نکال کر حالات کی چکی میں پسنے سے بچالیا۔ جس کا انکشاف ڈاکٹر نسیم اشرف کی کتاب میں بھی کیا گیا ہے کہ کلنٹن جب بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے دورے پر چند گھنٹوں کے لیے بادل نخواستہ رکے تو انہیں واش روم جانا پڑا۔ واش روم کی طرف بڑھتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیے جہاں کلنٹن نے چیف جسٹس کو متنبہ کیا کہ نوازشریف کو پھانسی نہیں ہونی چاہیے۔ اس پس منظر میں اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کلنٹن کی راہ پر چلتے ہوئے جب جنوبی ایشیا کی طرف آتے ہیں تو ان کا رویہ کیا ہوتا ہے؟